اگلی جنگ سے اسرائیلی خیمے میں تشویش، مزاحمتی تنظیموں کی بڑھتی طاقت سے پریشانی
صیہونی حکومت کی حساس اور بنیادی تنصیبات جیسے بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، صنعتی مراکز وغیرہ کو مزاحمتی میزائلوں سے نشانہ بنایا جانا، اگلی جنگ میں اسرائیلیوں کی سب سے بڑی تشویش ہے جو اس حکومت کو عملی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔
سحر نیوز/ دنیا: صیہونی حکومت کے خلاف کثیر محاذ جنگ کے امکان کے بارے میں متعدد انتباہات کے زیر سایہ، اس حکومت کی فوج کی صلاحیتوں اور اس کے موجودہ حالات کا جائزہ ایک اہم مسئلہ ہے جو اس وقت عبرانی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔
یہ واضح ہے کہ اسرائیلی فوج نظریاتی طور پر خطے کی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے جسے امریکہ اور دنیا کے دیگر بڑے ممالک کی لامحدود حمایت حاصل ہے۔ اسرائیلی فوج خاص طور پر آلات کی سطح اور ٹیکنالوجی اور رسد کی سہولیات کے لحاظ سے پیشرفتہ ہے لیکن مقبوضہ علاقوں کے اندر اور خود صیہونیوں کی طرف سے اتنی چیخ و پکار کیوں کہ کہ اسرائیلی فوج کسی بھی جنگ کے لئے تیار نہیں ہے۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی فوج کی ظاہری طاقت کے باوجود یہ فوج 2000 کے بعد سے نفسیاتی اور عملی طور پر موثر نہیں رہی اور لبنان کی مزاحمت کے خلاف اسے پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2000 میں حزب اللہ لبنان کی جانب سے ملنے والی شکست، عرب سرزمین پر کئی دہائیوں کے قبضے کے بعد صیہونیوں کو پہلا جھٹکا تھی۔ ان کی یہ ناکامی پہلی فلسطینی مسلح انتفاضہ کی بنیاد بنی اور پھر صیہونی حکومت کو 2005 میں غزہ پٹی سے انخلا کرنا پڑا اور یہ اس کے لئے دوسرا جھٹکا تھا۔
لیکن پچھلی دہائی میں غاصب صیہونی حکومت کو جو سب سے بڑا اور مؤثر جھٹکا ملا وہ جولائی 2006 کی حزب اللہ کے خلاف 33 روزہ جنگ میں ان کی ذلت آمیز شکست تھی اور صہیونیوں نے خود کو مزاحمتی تحریک کے سامنے بے بس پایا۔
یہ ناکامی مزاحمتی گروہوں اور خاص طور پر فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی ناکامیوں کے بعد کے سلسلے کی ایک تمہید تھی۔
یہ شکست اتنی تلخ تھی کہ اسرائیل کی خود ساختہ فوج، جسے کسی زمانے میں خطے کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا اور عرب اسے ناقابل تسخیر مانتے تھے، اب فلسطینی نوجوانوں کے سامنے جن میں اکثر 20 سال سے کم عمر کے ہیں، بے بس نظر آتی ہے۔