Mar ۲۸, ۲۰۲۴ ۱۷:۰۸ Asia/Tehran
  • اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن کون؟

عبرانی میڈیا کے مطابق مسئلہ ان انتہا پسند یہودیوں کی تعداد کا نہیں ہے جنہیں ملٹری سروس میں جانا پڑتا ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسند یہودی اسرائیل کی بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

سحر نیوز/ دنیا: اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوت نے ایک مقالے میں کہا کہ مسئلہ انتہا پسند یہودیوں (آرتھوڈوکس یہودیوں) کی فوجی خدمات میں حصہ لینے کا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسند یہودیوں کے رہنما اپنے آپ کو بالکل ہی اسرائیل کا حصہ نہیں سمجھتے اور انہیں اسرائیل کے انتہائی قدامت پسند نظریہ کی مختلف جہتوں اور صیہونیت کی ساخت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔

اس مقالے میں اخبار لکھتا ہے کہ وزیر اعظم بن گورین نے اپنی یادداشتوں میں ذکر کیا ہے کہ 20 اکتوبر 1952 کی صبح، بنی براک میں، میں نے الٹرا آرتھوڈوکس کے رہنما شازون ایچ سے ملاقات کی، اس ملاقات کو میڈیا نے وسیع طور پر کوریج دیا، اس ملاقات میں نے ان سے پوچھا، ایک ایسا سوال جس کا جواب مجھے آج تک نہ ان کی طرف سے ملا اور نہ ہی میرے مذہبی دوستوں سے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم متعدد مسائل کا شکار ہیں؟ ہمیں ان کے ساتھ کیسے زندگی بسر کرنا چاہیے؟ ہم اتحاد قائم کرنے میں کیسے کامیاب ہوں گے؟

لیکن شازون ایچ نے مجھ سے کہا کہ دو اونٹ ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں، ان میں سے ایک کی پشت پر سامان ہے جبکہ دوسرا خالی ہے اور جب ہم ایک تنگ پل کے نیچے سے گزرتے ہیں تو وہ اونٹ جس کی پشت پر کچھ نہیں ہوتا وہ آسانی سے راستے سے گزر جاتا ہے اور اسے ہی دوسروں کے لئے راستہ کھولنا چاہئے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی کے افراد تورات اور اس کے احکام کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اس لیے باقی صیہونیوں کو چاہیے کہ ہمارا راستہ کھولیں اور جہاں بھی راستہ تنگ ہو ہمیں ترجیح دیں۔

بن گورین لکھتے ہیں کہ میں نے جلدی سے جواب دیا، ٹھیک ہے، تارکین وطن کو راغب کرنا، حکومت بنانا، سیکورٹی قائم کرنا وغیرہ ، یہ سب کام بوجھ نہیں سمجھے جاتے ہیں۔

مقالہ نگار کی رائے میں، یہ دونوں شخصیات اسرائیل کی سب سے اہم شخصیات سمجھی جاتی ہیں، جو اس وقت سے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور آپس میں ٹکرا رہی ہیں حالانکہ بن گورین نے ان کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا تھا اور باضابطہ طور پر فوج میں ان کی عدم شمولیت کی اجازت بھی دے دی تھی۔

ٹیگس