Dec ۱۷, ۲۰۱۵ ۱۶:۵۳ Asia/Tehran
  • روس اور ترکی کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی
    روس اور ترکی کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

روس اور ترکی کے تعلقات میں اس وقت اور زیادہ کشیدگی پیدا ہوگئی جب انقرہ نے بحیرۂ اسود میں دستاویزات مکمل نہ ہونے کی بناء پر روس کے تقریبا ستّائیس تجارتی بحری جہازوں کو روک دیا۔

انقرہ کے اس اقدام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی فضائیہ کا ایک طیارہ مار گرائے جانے کے بعد انقرہ اور ماسکو کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کا دائرہ، اب بحیرہ اسود، روم اور مرمرہ تک پھیل گیا ہے۔

یہاں تک کہ ترکی نے روس سے معذرت خواہی نہ کرکے کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ روس کے سلسلے میں ان کے ملک کا موقف مکمل واضح ہے، جس کی بناء پھر روس کے مطالبات اور شرطوں کو پورا کیا جانا ناممکن ہے۔

ادھر روس نے بھی ترکی کے ساتھ بعض اقتصادی سودوں پر پابندی لگادی ہے۔

روس کی اقتصادی ترقی کی وزارت نے اس سلسلے میں ایک بل کا مسودہ تیار کیا ہے جس میں ترک مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگائی گئی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مشرق وسطی کی موجودہ صورت حال میں روس اور ترکی کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کنٹرول کرنے کے لئے منطق کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائے جانے کی ضرورت ہے اور ایسی حالت میں کہ ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے سے پیدا ہونے والے بحران کے بادل ابھی چھٹ بھی نہیں پائے تھے کہ ترکی نے اپنے فوجی، شمالی عراق پہنچا کر علاقے کو عوام کو ایک اور بحران سے دوچار کردیا جبکہ بیشتر مبصرین، ترکی کے اس قسم کے اشتعال انگیز رویے کو اتنا ہی ناقابل قبول قرار دیتے ہیں کہ جتنا وحشیانہ اور ظالمانہ طریقے سے کسی دہشت گرد گروہ کی حمایت ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ روسی لڑاکا طیارے کا مشن، شام کے علاقے میں داعش کے ان آئل ٹینکروں کو نشانہ بنانا تھا جو ترکی جا رہے تھے۔

روسی حکام کا، تاکید کے ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ ترکے کی فضائی حدود کی ہرگز کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی تھی اور اگر چند لمحوں کے لئے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی بھی ہو، تو روس کے ساتھ اس کے تجارتی و اقتصادی تعلقات کے پیش نظر اس کا جواب، یقینی طور پر منطقی نہیں تھا۔روسی لڑاکا طیارے کو مار گرانے اور اس کے فورا بعد شمالی عراق، فوجی روانہ کرنے کے پیچھے، ترکی کی کونسی منطق کار فرما ہے، یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور بظاہر اس سلسلے میں دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔

روس کے نامور مبصر وکٹر تیموف اور ان کے ہم خیال مبصرین کا خیال ہے کہ ترکی کا اس قسم کا اقدام، وہاں کی موجودہ اردوغان حکومت کی طبیعت و ماہیت کا نتیجہ ہے، جو مشرق وسطی میں عثمانی دور سلطنت، بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان مبصرین نے قطر میں فوجی اڈّے کے قیام سے متعلق ترکی کے اقدام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، جو علاقے میں اپنی نوعیت کا ترکی کا پہلا فوجی اڈّہ ہے۔

جبکہ دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ ترکی کے اس قسم کے تمام اقدامات کے پیچھے، اس کے عرب دوست ملکوں خاص طور سےعلاقے پر تسلط جمانے اور نیٹو کا دائرہ مزید پھیلانے کی غرض سے یورپ و امریکہ کا ہاتھ ہے اور اس سلسلے میں ترکی، ایک طرح سے نیابتی کردار ادا کر رہا ہے۔جبکہ فارن پالیسی جریدے کی یہ بات بھی بلاوجہ نہیں ہوسکتی کہ جس نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیؤ تحقیقاتی مرکز کے جائزے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مشرق وسطی کے علاقے میں امریکہ مخالف رجحان کافی بڑھتا جا رہا ہے۔

ٹیگس