Oct ۱۷, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۳ Asia/Tehran
  • ترکی سے سعودی قونصل جنرل کا راتوں رات فرار، سعودی ولیعہد کی پے درپے شکست

ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے جنرل قونصل محمد العتیبی راتوں رات ترکی سے ریاض فرار کر گئے-

خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے کاغذات بنوانے گئے تھے، سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق وہ قونصل خانے کے اندر تو داخل ہوئے لیکن باہر نہیں آئے اور اب تک لاپتہ ہیں۔ ایک روز قبل ترک حکام نے سعودی قونصل خانے کا بغور جائزہ لیا اور 9 گھنٹے مسلسل چھان بین کی، اگرچہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں لیکن اتنا کہا ہے کہ سفارت خانے کے ایک کمرے میں تازہ رنگ وروغن کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے ضمنی طور پر خاشقجی کے قتل ہونے کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس جارحیت میں جو براہ راست ملوث ہے وہ استنبول میں سعودی عرب کا جنرل قونصل محمد العتیبی ہے-

اسی لئے ترکی کے ذرائع ابلاغ نے گزشتہ دنوں بارہا اس امر پر تاکید کی ہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر خاشقجی کے قتل میں،  جنرل قونصل کا موثر رول رہا ہے۔ اور ان کا شمار ایک ناپسندیدہ افراد میں ہوتاہے اور ان کو ترکی سے نکل جانا چاہئے۔ طے یہ پایا تھا کہ ترکی کے سیکورٹی اہلکار، استنبول میں سعودی جنرل قونصل کے گھر میں داخل ہوکر تحقیقات انجام دیں گے لیکن اس سے قبل کہ ان کے گھر کی تلاشی اور تحقیقات شروع ہوتی، العتیبی راتوں رات ہی استنبول سے فرار کرکے ریاض پہنچ گئے۔ درحقیقت العتیبی کو، قبل اس کے کہ ترکی کی حکومت اپنے ملک سے نکالتی، انہوں نے اپنی گرفتاری کے خوف سے  فرار کرنے کو ترجیح دی اور اس  آل سعود کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی شکست نصیب ہوئی ہے-

استنبول میں سعودی عرب کے جنرل قونصل محمد العتیبی، جمال خاشقجی کے خلاف انجام پانے والی بربریت کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات رکھتا ہے کیوں کہ یہ واقعہ جہاں رونما ہوا ہے وہاں اس کا دفتر ہے۔ اس بناء پر العتیبی استنبول سے فرار کرگیا ہے تاکہ آل سعود، ٹرمپ حکومت کی مدد سے اس مسئلے کو دبا دے اور یہ ظاہر کرے کہ اس جارحانہ واقعے میں آل سعود حکومت کا کوئی رول نہیں ہے- 

بہر صورت آل سعود حکومت اس جارحیت سے اپنا دامن بچا نہیں سکتی اور یہ جارحیت و بربریت، آل سعود کے کارنامے میں رقم ہوگی۔ کیوں کہ عالمی رائے عامہ، بیشتر ملکوں منجملہ یورپی ملکوں کے حکام اور عہدیداروں، میڈیا کی اہم شخصیات اور دنیا کے نامور سرمایہ کاروں کا یہ ماننا ہے اور ان کے لئے ثابت ہوچکا ہے کہ جمال خاشقجی کے خلاف جارحیت، سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے براہ راست حکم سے انجام پائی ہے۔ یہ صورتحال محمد بن سلمان کو اس دلدل سے نجات نہیں دلا سکتی کہ جس میں وہ جمال خاشقجی کے قتل کے باعث پھنس چکے ہیں۔ کیوں کہ اس جارحیت پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بہت سے ذرائع ابلاغ ، سرمایہ کاروں اور دنیا کے مختلف ملکوں کے حکام نے " سعودی عرب میں سرمایہ کاری" سے موسوم کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا ہے- یہ چیز بلا شبہ محمد بن سلمان کے لئے ایک بڑی شکست ہے-

درحقیقت استنبول سے محمد العتیبی کے راتوں رات فرار کرجانے کے بعد ریاض میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ ، خاشقجی کے قتل کے تعلق سے محمد بن سلمان کے لئے ایک اور سنگین پیغام کا حامل ہوسکتا ہے۔ لیکن آل سعود کا یہ جارحانہ اقدام اس کے دیگر جارحانہ اقدامات، مثال کے طور پریمن کے خلاف جنگ، ریاض میں سعد الحریری کی گرفتاری اور اندرون ملک ناقدین کی شدید سرکوبی، کہ جو گزتشہ ساڑھے تین برسوں سے جاری ہے، ممکن ہے سعودی عرب کے جوان ولیعہد کے لئے سنگین پیغام کی حامل ہو اور قبل از وقت اس کی جاہ پسندی کے خاتمے پر منتج ہو۔ امریکی ریپبلیکن سینٹیر لینڈسی گراہم نے اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھایا ہے اور صراحتا اعلان کیا ہے کہ بن سلمان کو اقتدار چھوڑ دینا چاہئے کیوں کہ وہ کسی بھی طور ایک ملک کی قیادت کے اہل نہیں ہیں-

ٹیگس