Dec ۱۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۰۳ Asia/Tehran
  •  خلیج فارس کے علاقے میں امن و سلامتی کے عملی جامہ پہننے کے لئے اعتماد اور نیک نیتی ضروری-

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ریاض میں خلیج فارس تعاون کونسل کے چالیسویں سربراہی اجلاس کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں غیرعاقلانہ پالیسیوں کے حامیوں کو رائے عامہ کو جواب دینا پڑے گا-

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے بدھ کو کہا کہ علاقے میں موجودہ غیرعاقلانہ پالیسیوں کے تسلسل کے حامی معدودے چند ممالک رائے عامہ کو جواب دیں کہ انھوں نے عراق ، شام اور یمن میں دہشتگرد گروہوں کو جنم دینے ، انھیں مضبوط بنانے اور خلیج فارس میں اغیار کے آنے کا راستہ کھولنے کے سوا علاقے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے کیا کیا ہے؟ ترجمان وزارت خارجہ سید عباس موسوی نے ایران کے ذمہ دارانہ رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عدم جارحیت معاہدے ، علاقائی ڈائیلاگ کونسل کے قیام اور آخرکار ہرمز امن منصوبے کی تجاویز وہ جملہ کوششیں ہیں جو ایران نے علاقائی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کی ہیں۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تین ایرانی جزیروں ، ابوموسی ، تنب بزرگ اور تنب کوچک کو اسلامی جمہوریہ ایران کا اٹوٹ حصہ قرار دیا اور کہا کہ ان جزیروں میں ایران کے تمام اقدامات ، ملک کی ارضی سالمیت اور قومی اقتداراعلی کے مطابق اور مسلمہ حقوق کے تحت اٹھائے گئے ہیں اور اس طرح کے مداخلت پسندانہ موقف کی تکرار چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو پوری طرح قابل مذمت ہے اور اس کا موجودہ قانونی اور تاریخی حقائق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے خلیج فارس تعاون کونسل کے بیان میں ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی اقتصادی دہشتگردی کی کھلی حمایت کی مذمت کی اور اسے اچھی ہمسائگی کی پالیسی کے منافی قرار دیا۔

خلیج فارس تعاون کونسل کہ جس کی بنیاد 1981 میں رکھی گئی تھی، آج جبکہ اسے اپنی شناخت اور سالمیت کے بحران کا سامنا ہے، اس کونسل کے بعض رکن ملکوں نے ایسے مواقف اپنا رکھے ہیں کہ جو مغربی ایشیا اور خلیج فارس کے علاقے کے ملکوں کی سلامتی کے حق میں نہیں ہیں-

خلیج فارس تعاون کونسل میں سعودی عرب کے روایتی اثر و رسوخ اور سعودی پالیسیوں کا تابع ہونے کے لئے دباؤ ڈالے جانے کے سبب، یہ کونسل گہرے سیاسی بحران سے دوچار ہوگئی ہے- اس کے علاوہ سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کے علاقائی مواقف ، خلیج فارس کے علاقے کی ایک اور مشکل ہیں- خلیج فارس اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکہ کی غیر تعمیری اور دشمنانہ پالیسیوں کی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ امارات کی جانب سے اتباع و پیروی نے علاقے کو بحران سے دوچار کردیا ہے- ریاض میں خلیج فارس تعاون کونسل کے چالیسیویں سربراہی اجلاس کے بیان نے، سعودی عرب کے ایران مخالف رویے کو برملا کردیا ہے- جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مختلف علاقائی منصوبے پیش کرنے کے ذریعے، کہ جس کا آخری نمونہ "ہرمز امن منصوبہ" ہے، خلیج فارس میں اچھی ہمسائیگی اور پرامن بقائے باہمی کو پایۂ ثبوت تک پہنچایا ہے- 

ملت ایران کے خلاف امریکہ کے دشمنانہ رویے کی سعودی عرب کی جانب سے حمایت اور ہم فکری کے سبب، یہ سوال علاقے کی رائے عامہ کے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ کیوں سعودی حکومت ، ایران کی اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کو نظر انداز کرکے امریکی حکومت کے ہم خیال ہوگئی ہے؟

مغربی ایشیا اور خلیج فارس کے علاقے میں اغیار کی موجودگی اور ان کی بامقصد پالیسیاں، علاقے کی امن و سلامتی میں کوئی مدد نہیں کریں گی-اس کے علاوہ سعودی حکومت کے لئے امریکی حمایت کا سایہ بھی، خلیج فارس کے علاقے میں اس ملک کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتا

امریکہ میں برسر اقتدار آنے والی مختلف حکومتیں صرف اور صرف اپنے مفادات کے درپے رہی ہیں اور موجودہ ٹرمپ حکومت تو سعودی حکام کو غیر سفارتی الفاظ سے مخاطب بھی کرتی ہے پھر بھی ان کو اپنی غیرت و حمیت کا پاس و لحاظ نہیں - اس مسئلے سے امریکیوں کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویوں کا پتہ چلتا ہے ایسے میں سعودیوں کو ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے- 

بعض سیاسی کدورتوں کو بالائے طاق رکھ کر علاقے میں امن و سلامتی کوعملی جامہ پہنایا جانا، صرف علاقائی سطح پر مذاکرات کے سائے میں ہی ممکن ہے اور ایران نے اس اہم اصول سے واقفیت کے ساتھ ہی دوستی کا ہاتھ خلیج فارس کے ملکوں کی جانب بڑھا دیا ہے-

ایران کی جانب سے پیش کئے گئے منصوبوں پر اعتماد و یقین، خلیج فارس میں ایران کے جنوبی ہمسایہ ملکوں کے فائدے میں ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کونسل کے رکن ملکوں نے ریاض کے اختتامی اجلاس کے بیان میں، سیکورٹی سے متعلق جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بھی علاقائی تعاون کے سائے میں دور ہوجائے گی- 

ٹیگس