Dec ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۸:۰۰ Asia/Tehran
  • ہندوستان کے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف قم میں احتجاج

ایران کے معروف شہر قم کے حوزہ علمیہ میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء نے اجتماع کر کے آئین ہند کی حفاظت کا عہد اور شہریت ترمیمی بل کے خلاف زبردست اور پُر زور احتجاج کیا۔

حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم ہندوستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء  نے قم مقدسہ میں اپنے ملک کے تئیں اپنی وفاداری کو ثابت کرتے ہوئے زبردست احتجاج کیا ہے ۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق  قم کے مدرسہ مرعشیہ  میں  طلاب ہندوستان کی جانب سے رکھے گئے احتجاجی جلسہ میں قم اور اسکے مضافات کے علاقوں میں رہائش پذیر سیکڑوں طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

اس احتجاجی جلسے میں متعدد مقررین نے شرکاء کو خطاب کیا۔

ہندوستان کے جانے مانے جواں سال قلمکار، شاعر اور عالم  حجۃ الاسلام  عابد رضا  رضوی نوشاد نے NRC اور CAA  پر تبصرہ کرتے ہوئے دونوں قوانین کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون مکمل طور پر آئین ہند کے خلاف ہے.

مولانا عابد رضا نوشاد نے کہا: اگر چہ ان قوانین کا اصل نشانہ مسلمان ہیں تاہم ہمارا ماننا ہے کہ یہ مسلمانوں پر نہیں بلکہ مکمل ہندوستان اور ہندوستانیوں پر حملہ ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا. 

انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق مظلوم کی حمایت اور ظلم کی مخالفت کو علماء کا انسانی و اسلامی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ ہم بھی صرف مسلمانوں کے حق کی بات نہیں کرتے بلکہ ان تمام قوموں کے حقوق کے مدافع ہیں جو فاشیسٹ طاقتوں کے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں،اب چاہے ہو وہ دلت ہوں یا آدیواسی یا کوئی اور قوم۔

مولانا عابد رضا نوشاد نے حکومت ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے سبھئ شہریوں کے لئے تمام تر حقوق کو بغیر کسی جانبداری اور مذہبی تفریق کے تحفظ فراہم  اور آئین ہند کے وقار کو ملحوظ رکھے۔

جلسے کے ایک اور مقرر، ممتاز دانشور وعالم و تجزیہ نگار حجۃ الاسلام عاکف علی زیدی نے شہریت کے قانون کے ترمیمی بل کی تشریح و توضیح  کرتے ہوئے نظر نہ آنے والے کئی اچھوتے پہلووں کو اجاگر کیا اور مختلف زاویوں سےاس بل کے پر روشنی ڈالی۔

مولانا عاکف زیدی نے  ۲۰۱۴ء کے بعد سے سلسلہ وار طور پر ان مسائل کو بیان کیا جو ۲۰۱۴ء کے الیکشن کے بعد سے ہی بے جے پی کے منشور میں شامل تھےاورحکمراں جماعت نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے کئے گئے وعدوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے بی جے پی کے  ایجنڈوں کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ  یوں تو اس سے قبل بھی یہ  بل پاس ہو چکا تھامگر ایوان بالا میں اسے مکمل حمایت نہ مل سکی جسکی وجہ سے اسکا نفاذ عمل میں نہ آ سکا تھا۔اس  کے بعد ۲۰۱۹ ء میں ایک بار پھر یہ معاملہ انتخابی منشور کا حصہ بنا۔

 مولانا عاکز زیدی نے کہا کہ حکومت نے اس بل کو منظور کرانے اور اسکے نفاذ کے لئے پہلے این آر سی کو لانے سے پہلے سی اے بی کو لانے کا فیصلہ کیا تاکہ آسام میں اس سے پہلے پیدا ہونے والی مشکلات سے بچا جا سکے۔

  عاکف زیدی صاحب نے مزید کہا کہ لوک سبھا کے دوسرے الیکشن میں گرچہ بے جے پی نے اس پر بہت زور نہیں دیا اور بات آسام و بنگال تک ہی محدود رہی ہاں  آسام میں یہ ضرور ہوا کہ ۱۹ لاکھ شہری غیر قانونی قرار دئے گئے جسکی وجہ سے مسلمانوں اور دیگر مذاہب و ادیان کے ماننے والوں میں زبردست  تشویش پیدا ہوئی  کیونکہ اس کام کے انجام دہی کے مراحل بہت اذیت ناک تھے لہذا عام لوگوں کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی ، لوگوںپرڈیپریشن طاری ہوا ، کچھ لوگ مریض ہوئے کچھ نے خودکشی کر لی  کئی خاندن این آر سی کی مار نہ جھیل کر برباد ہو گئے  …

مولانا عاکف زیدی نے اس قانون کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اس قانون کو دیکھیں تو اس کا مضمون یہ ہے کہ  ''اس قانون سے پہلے تک اگر کوئی غیر ملکی ہندوستان میں آکر شہریت حاصل کرنا چاہتا تھا تو اسے گیارہ سال یہاں رکنا پڑتا تھا اور دوسری شرط یہ تھی کہ گیارہ سال کی مدت میں اسکی رہائش قانونی ہو لیکن جو ترمیم ہوئی ہے اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے  گیارہ سال کا عرصہ چھ سال کا ہو گیا  ہے  اور یوں رہائش کے عرصے کو چھہ سال میں مختصر بنانے کی کوشش کی گئی ہے  تاکہ غیر مسلموں کو شہریت دینے کا کام اور بھی آسان ہو سکے  چنانچہ اس قانون  میں ترمیم کے بعد وہ لوگ جو پاکستان ، افغانستان و بنگلادیش کے پناہ گزین ہیں اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو چاہے وہ غیر قانونی طور پر ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں انہیں شہریت دی جائے گی۔

مولانا عاکف زیدی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت جو چیز فوری طور پر عمل میں آئے گی وہ ۲۵ سے تیس ہزار تک  کے تعداد کی شہریت کی منظوری ہے   البتہ یہاں بات صرف ۲۵ سے ۳۰ ہزار تارکین وطن کی نہیں جنہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی اگر بات صرف ۲۵ سے تیس ہزار لوگوں کو ہندوستانی شہریت کی ہوتی تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی اور کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا  اور جتنا ہنگامہ ہوا اس کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔

انہوں نے بتایا کہ بل کے بعد ہونے والے اعتراضات کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا ، شمال میں زبردست مظاہرے رہے پھر بنگال میں مظاہرے  ہوئے اور بل کے خلاف ریلیاں نکلیں اور گزشتہ جمعہ کے دن سے پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں نے بھی کھل کر مخالفت کا اعلان کیا اور وہ سڑکوں پر نکلے اور گزشتہ اتوار سے دیکھنے کو ملا کہ  جامعہ ملیہ دہلی اور علی گڑھ میں طلباء کے احتجاج کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی گئی  ان دو مقامات پر ہونے والی بربریت کی خلاف دیگر یونیورسٹیز و کالجز میں مظاہرے ہوئے اور وہ بھی ان جگہوں پر جہاں صرف مسلمان  ہی مظاہروں میں شامل نہیں تھے بلکہ سبھی لوگ تھے کیرل میں بھی مظاہرے ہوئے

حجۃ الاسلام عاکف زیدی  نے بی جے پی جانب سے ایک رچی جانے والی ممکنہ سازش کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ جہاں پر بھی بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں ان مظاہروں میں تشدت آمیز واقعات نہیں دیکھنے کو مل رہے ہیں  اور ان علاقوں میں ہونے والے مظاہرے پر امن ہیں لیکن جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پر تشدد ہو رہاہے  اسی بات سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد کا سورس اور سرچشمہ کیا ہے ؟

انہوں نے واضھ کیا کہ یہ مظاہرے صرف ملکی پیمانے پر ہی نہیں ہوئے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی یہ رد عمل دیکھنے کو آیا کہ مختلف ممالک کے عہدے داروں نے  اپنے دوروں کو رد کر دیا۔  حتی اقوام متحدہ میں بھی اس بل کو لیکر خدشات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اس طرح سے بہت سے لوگ کسی بھی ملک کے شہری نہیں رہیں گے اور یہ آج کے نظام کی بڑی مشکل بن جائے گی کہ  کون سا ملک انہیں قبول کرے گا کون انہیں شہریت دے گا۔

  بل کے بعد سے ہونے والے رد عمل کا اجمالی جائزہ لینے کے عاکف زیدی نے کہا کہ اس ترمیمی قانون میں اگر ۳۰ چالیس ہزار کو شہریت مل رہی ہے تو اتنی سی بات کو لیکر اتنے بڑے پیمانے پر ہنگامے کیوں ہیں اسکو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے ،ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں  جیسے آسام  میں تقریبا سو سال کی تاریخ ہے کہ وہاں دوسرے علاقوں سے دیگر ممالک کے لوگ آکر بس رہے ہیں اور انکی ایک بڑی تعداد ہےاسی بنا پر وہاں کی سیاست اسی مسئلہ کو لیکر گھوم رہی ہے لہذا وہاں پر اونچی ذات کے ہندووں کو لگتا ہے کہ اس سے انکے کلچر کو نقصان ہوگا اور یہ بات ۳۰ چالیس ہزار لوگوں کی نہیں ہے بلکہ  دیگر ممالک سے لوگ اور بھی آئیں گے چونکہ ایک باب کھل جائے گا اور لوگ  افغانستان و پاکستان و بنگلادیش سے یہاں داخل ہونا شروع ہونگے  تو یہاں کے باشندوں کی تہذیب متاثر ہو گی۔

انہوں نے مسلمانوں کی جانب سے مذکورہ بل کی ہونے والی مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ  مسلمانوں پر  اسکا زیادہ ہی  اثر پڑے گا  اسی بنا پر مسلمان بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مولانا عاکف زیدی نے کہا کہ یہ ہندوستان میں ہونے والے مظاہروں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو بی جے پی کی تفرقہ انگیز و نفرت پھیلانے والی سیاست کے خلاف ہیں وہ بھی احتجاج و مظاہرے میں شریک ہیں وہ لوگ بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہیں جو چاہتے ہیں سارے مذاہب کے لوگ مل جل کر محبت و امان کے ساتھ رہیں  ایسے ہندو بھی شریک ہیں جو بی جے پی کی سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں اس لئے کہ اس سے پہلے این آرسی کو بہت ہی دردناک انداز میں انجام دیا گیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اب ڈر اس بات کا ہے کہ سالہا سال ذلیل کرنے کے بعد ہزاروں اذیتیں پہنچانے کے بعد لوگوں کی شہریت کو منسوخ کر دیا جائے گا اور پھر غیر مسلمانوں کے لئے ایک راستہ کھول دیا جائے گا جسے سی اے اے کہتے ہیں۔ اس کے ذریعہ انہیں دوبارہ شہریت مل جائے گی  یہ راستہ صرف مسلمانوں کے لئے بند ہوگا اب مسلمان یہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں ملک سے نکال باہر کیا جائے گا  اور یہ بھی ممکن ہے کہ انکی ایک بڑی تعداد کو بنائی ہوئی جیلوں میں ڈال دیا جائے یا کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا جہاں انکی حیثیت غلاموں جیسی ہو گی۔

مولانا عاکف زیدی ن کہ کہ ممکن ہے کچھ لوگوں کو شہریت مل جائے لیکن جنہیں شہریت ملے گی انہیں بھی بڑی اذیتوں سے گزرنا پڑے گا ،اوراس کے ذریعہ ایسے ظلم کی تاریخ رقم ہوگی جس کے سامنے گجرات ، بابری مسجد  کے دنگے بھی پھیکے پڑ جائیں گے اور ایک افراتفری کا ماحول پیدا جائے گا۔ انہیں مذکورہ دلائل کی بنا پر وہ ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتر آئے ہیں جو انصاف پسند ہیں اور ملک سے محبت کرتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی قانونی ترمیم کو لیکر اتنے وسیع پیمانے پر غم و غصے کا اظہار دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

اس تجزیاتی گفتگو کے بعد  حجۃ الاسلام  مراد رضا رضوی نے جوشیلے انداز میں ملک میں ہونے والی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہرگز اپنے خلاف ہونے والی سازشوں پر خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے بلکہ اپنے حق کا دفاع کریں گے۔

مولانا مراد رضا صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج قم کی سر زمین سے یہ پیغام جارہا ہے کہ انسانیت کی حفاظت کے لیے قم کا حوزہ ہمیشہ میدان میں ہے .مظلوموں کی حمایت قم والوں کا پیغام ہے .

انسانی اور اسلامی اتحاد پر زور دہتے ہوئے مولانا مراد رضا  نے کہا ظالم حاکم زیادہ دن باقی نہیں رہتے.یہ بہانہ ہے یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے یہ بل اصل میں انسانیت کے خلاف ہے یہ مذہب کے نام ہر ہندوں کے لباس  میں ہندوستان کے امن وامان کو غارت کرنا چاہتے ہیں لہذا ان ملک کے غداروں اور اسراییل کے اشاروں پر چلنے والے دہشت گرد ٹولے سے مقابلہ ضروری ہے .

وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے مراد رضا صاحب  نے کہا کہ حکمراں جماعت میں ایک وہی سنجیدہ سمجھے جاتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اصول کا سودہ کرلیا ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان ممالک میں بھی قتل ہونے والے مذہب کے نام پر  ہی قتل ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو بہانا بنا کر یہ پوری قوم  کو نیست ونابود کرنا چاہتی  ہے.احتجاج اور قانونی چارہ جویی کے ذریعے ان  لوگوں کی دہشت گردی سے مقابلہ ضروری ہے،الہٰذااتحاد ضروری ہے ۔

انہوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے انداز حکومت کی جانب جانب اشارہ کیا اور کہ اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے،یہ بات دنیا کو حضرت علی علیہ السلام سے سیکھنا چاہیے.

انہوں نے علماء اور طلاب کو خطاب کرتے ہوئے کہ لوگوں کو آگاہ کرنے اور ظالم حکمرانوں کی چال کا پردہ فاش کرنا ان کی ذمہ داری ہے تاکہ ہمارے ہندو بھاییوں کو بھی معلوم ہو جائے کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں  اور صہیونیوں کے ہاتھوں ہندوستان کو بیچنا چاہتے ہیں .

مولانا رضاحیدر نے کہا کہ جس حکومت کی پولس لائبریری میں بے دریغ حملہ کرے، وہ  درندہ ہے  اسے حکومت کرنے کا حق کہاں جو بیٹی کو بے دردی سے مارے اس کا  بیٹی پڑھانے کا نعرہ جھوٹا ہے۔

معروف خطےب مولانا رضا حیدر نے  کہا کہ ہمیں حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ہمارا امام وقت ہمارے اعمال کا نگراں ہے  وہ ہمارا محافظ و نگہبان ہے  بس ہمیں اسکی راہ پر چلنا ہوگا۔

حجۃ الاسلام رضا حیدر نے  کہا کہ یہ آئین ہندوستان کو تباہ کرنے کی سازش ہے مسلمانوں کے خلاف سازش ہے  لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ہندوستان میں ڈر اور خوف سے رہیں گے بلکہ ہم حق کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور تمام انسانوں کے ساتھ اس مسئلہ میں بلا تفریق مذہب و ملت شریک ہو کر مل جل کر احتجاج کریں گے 

رضا حیدر صاحب نے دہلی میں جامعہ ملیہ میں  پولیس کی بربریت کی مذمت کی اور علی گڑھ و جامعہ کے زخمی طلاب کے حق میں دعاء کی اور یقین دلایا کہ ہم ان مظلوموں کے ساتھ ہیں۔

رضا حیدر صاحب نے واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ ہم اس ملک کا ایک حصہ ہیں ہم دشمنوں کو اپنی شہریت تشتری میں سجا کر انکے حوالے نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں خدا کی ذات پر بھروسہ رکھنے اور سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور انشاء اللہ کامیابی ہماری ہوگی  ۔

پروگرام کے اختتام میں طلاب ہندوستان کی جانب سے میمورنڈم پیش کیا گیا  جسے حجۃ الاسلام نجیب الحسن زیدی نے پڑھا اور حاضرین جلسہ نے  نعرہ تکبیر کے ذریعہ اس کی حمایت کا اعلان کیا واضح رہے یہ میمورنڈم  تہران میں ہندوستانی سفارت خانے کے ذریعہ صدر جمہوریہ تک پہنچایا جائے گا ۔

ٹیگس