Dec ۰۷, ۲۰۱۹ ۱۴:۴۳ Asia/Tehran
  • تمام فریقوں کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد پر تاکید

ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کا اجلاس جمعے کو ویانا میں منعقد ہوا جس میں ایران اور گروپ ایک جمع چار کے رکن ممالک جرمن ، فرانس، روس، چین اور برطانیہ کے نائب وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکریٹریوں نے شرکت کی۔

ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے چودہویں اجلاس کی سربراہی ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور یورپی یونین کی ڈپٹی فارن پالیسی چیف ہیلگا اشمد نے کی۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ویانا میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے چودہویں اجلاس کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں سب ہی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایٹمی سمجھوتے میں کشیدگیوں کی جڑ امریکہ ہے۔

سید عباس عراقچی نے ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے نئے سربراہ رافائل گروسی سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں کہ جو ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے فورا بعد انجام پائی کہا کہ یہ ملاقات بہت مفید رہی ہے۔

سید عراقچی نے کہا کہ آئی اے ای اے کے نئے سربراہ نے اس ملاقات میں تاکید کی ہے کہ ایران کے ساتھ اس ادارے کا سابقہ تعاون برقرار رہنا چاہئے۔ سید عباس عراقچی کے بقول اس ملاقات میں بعض مسائل و مشکلات اور ان کے راہ حل کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔ جیسا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے اس اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا، ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں فریقین کی جانب سے کچھ تنقیدیں تو ہوئیں لیکن ان تنقیدوں سے یہ واضح ہو گیا کہ تمام فریقوں کے درمیان دو موضوعات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس اجلاس میں تمام فریقوں نے تصدیق کی کہ ایٹمی سمجھوتے میں تمام کشیدگیوں کی جڑ امریکہ ہے۔ اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام فریق امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کے مخالف ہیں اور تمام فریقوں کی تاکید تھی کہ ایٹمی سمجھوتے سے ایران کو فائدہ پہنچے بغیر اس بین الاقوامی معاہدے کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔

ایک اور موضوع جس پر اس اجلاس میں تاکید کی گئی وہ ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کی ضرورت پر اتفاق رائے اور ایٹمی سمجھوتے کے تحفط کے طریقہ کار کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانا ہے تاہم یورپ کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے سلسلے میں کوتاہی کئے جانے کے باوجود یورپ نے ویانا اجلاس کے انعقاد سے پہلے ایٹمی سمجھوتے سے ماوری اقدام کرتے ہوئے ایران کے میزائلی پروگرام کو بہانہ بنایا تاکہ ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایران کی تنقیدوں کے سلسلے میں جوابدہ نہ ہوں۔ برطانیہ فرانس اور جرمنی نے بدھ کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری آنٹونیو گوترش کے نام ایک خط میں دعوی کیا کہ ایران کے بیلسٹیک میزائلوں کے بعض ماڈلس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس سے مطابقت نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے ایران کے ایٹمی سمجھوتے کی تائید کی گئی ہے۔

ایران کے میزائلی پروگرام کے اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق نہ ہونے کا دعوی ایسے عالم میں کیا جا رہا ہے کہ اس قرار داد میں ایران سے صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ ایسے میزائلی پروگرام پر کام نہ کرے جس میں ایٹمی وار ہیڈز نصب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔

ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد یورپ نے ایران سے گیارہ وعدے کئے اور ایٹمی سمجھوتے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کے لئے یورپ کا مالی میکانیزم انسٹیکس ، یورپ کے معاہدوں پر عمل درآمد کے لئے ایک مقدمہ ہے جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔

واضح رہے کہ ایران ، ایٹمی سمجھوتے میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کی سطح کم کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھےگا جب تک اس کے مفادات کا تحفظ نہ ہو۔

ٹیگس