دہشت گردی مخالف سعودی اتحاد ، صرف ایک ڈرامہ
یمن پر حملے میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے عرب اتحاد کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں عسکری و اسلامی اتحاد کے اعلان کے سلسلے میں ایران کا اشتراک عمل مثبت نہیں رہا ہے-
سعودی عرب کے وزیر دفاع کے مشیر اور یمنی عوام کے خلاف عرب اتحاد کے ترجمان احمد عسیری نے بدھ کو مختلف علاقوں میں دہشت گردی برآمد کرنے کی جڑ اور داعشی تکفیری دہشت گردی کے افکار و نظریات کو پھیلانے میں اپنے ملک کے کردار پر کوئی توجہ دیئے بغیر دعوی کیا کہ جو دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا-
سعودی عرب کے وزیر دفاع کے مشیر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ عسکری و اسلامی اتحاد میں پینتیس ممالک شامل ہیں اور اس کا خیرمقدم کیاگیا ہے ، اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا کہ سعودی عرب کے اس اقدام کا دعوی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت بڑا قدم ثابت ہو سکتا ہے-
دہشت گرد گروہوں کو جنم دینے میں ریاض کے کردار کے پیش نظر خود ساختہ عسکری و اسلامی اتحاد کی تشکیل کے بارے میں سعودی عرب کا دعوی بنیادی طور پر اس کے عملی اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ اتحاد ایک قسم کا سیاسی ڈرامہ ہے- آل سعود نے داعش کو جنم دینے کے لئے امریکہ سمیت مختلف ملکوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس صورت حال میں داعش کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی ذمہ داری آل سعود کے کردار کو برعکس ظاہر کرنا اور وہابی افکار کو فروغ دینا ہے-
عسکری و اسلامی اتحاد کہ جو صرف ایک ڈرامہ ہے، اس میں جن پینتیس ملکوں کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں بزغم خود داعشی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف سعودی عرب اور قطر فعال ہیں- دہشت گردی کی حمایت میں سعودی عرب کے سیاہ کرتوت ، شام کے بحران کا اہم سبب و حصہ اور اس لعنت کو پھیلانے والے ہیں لہذا ریاض علاقے میں دسیوں دہشت گرد گروہوں کی مالی اور ائیڈیالوجیکل مدد کرنے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اتحاد تشکیل دے کر اپنے تخریبی کردار اور دہشت گردانہ افکار کو پھیلانے کے کردار پر پردہ نہیں ڈال سکتا-
ایران اپنی منطقی پالیسی سے ، سعودی عرب کہ جو دہشت گردی کی اصلی جڑ ہے ، کے اتحاد پر توجہ ہی نہیں دیتا اور اسے بنیادی طور پر ایک ایسا مضحکہ خیز ڈرامہ سمجھتا ہے کہ جو صرف بحران شام میں سعودی عرب کے نقصان کی تلافی کے لئے ، صرف کاغذ پر تشکیل پایا ہے-
سعودی عرب ، بحران شام میں پہلے سے طے شدہ اپنے پروگرام پر عمل درآمد یعنی بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی کے باعث ، سب سے بڑا شکست خوردہ کا لقب حاصل کر چکا ہے، چونکہ اس نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران اس مقصد کے لئے کافی پیٹرو ڈالر خرچ کئے ہیں لیکن بشار اسد آج بھی اقتدار میں باقی ہیں اور سعودی عرب اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا ہے -
بحران شام کے حل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد دو ہزار دو سو چون نے بھی کہ جس میں اس ملک کی ارضی سالمیت ، اقتدار اعلی کے احترام اور سیاسی روش پر تاکید کی گئی ہے اور بشار اسد کی سرونوشت کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی گئی ہے ، سعودی عرب کو گھیرے میں لے لیا ہے- چنانچہ بحران شام کے گرہن سے نکلنے کی سعودی عرب کی کوشش، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اس ملک کے اقدامات کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتی، چونکہ سعودی عرب خود دہشت گردوں اور دہشت گردی کا مرکز ہے-