Nov ۳۰, ۲۰۱۶ ۱۷:۱۳ Asia/Tehran
  • داعش کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

امریکہ کی سفارتی دستاویزات کے انکشاف کے چھ برس پورے ہونے کے موقع پر ویکی لیکس سائٹ کے بانی جولین آسانچ نے اعلان کی ہے کہ امریکہ کی بدنام زمانہ جاسوسی کی تنظیم سی آئی اے نے دھشت گرد تکفیری گروہ داعش کی بنیاد رکھی تھی۔

امریکہ کی سفارتی دستاویزات کے انکشاف کے چھ برس پورے ہونے کے موقع پر ویکی لیکس سائٹ کے بانی جولین آسانچ نے اعلان کی ہے کہ امریکہ کی بدنام زمانہ جاسوسی کی تنظیم سی آئی اے نے دھشت گرد تکفیری گروہ داعش کی بنیاد رکھی تھی۔

جولین آسانچ نے اپنے بیان میں کہ جو کارٹر تھری دستاویز کے عنوان سے شائع ہوا، وضاحت کی ہے کہ دھشت گرد گروہ داعش کا ماضی 1979 سے جڑا ہوا ہے۔

آسانچ کے بقول، سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لئے افغانستان میں مجاہدین کو مسلح کرنے کا امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب کا فیصلہ، اسامہ بن لادن کو پاکستان اور پھر افغانستان بھیجنے کو دیکھتے ہوئے، القاعدہ کی تشکیل پر منتج ہوا ہے۔

القاعدہ گروہ کے دائرے میں سلفیوں کو اکھٹا کیا جانا، گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کا موجب بنا۔

امریکہ نے ان حملوں کے بہانے افغانستان اور عراق پر لشکر کشی کردی، جس کے نتیجے میں عراق پر قبضہ کیا گیا اور یہ لشکر کشی داعش کے وجود میں آنے کا باعث بنی ہے۔

ہر چند کہ آسانچ نے داعش کو تشکیل میں لانے کے حوالے سے تاریخ کا سرسری جائزہ لیا ہے، لیکن دھشت گرد گروہ داعش دو ہزار گیارہ میں عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی تحریک کے بعد ایک دھشت گرد گروہ کے نام اور مشخص افراد کے ساتھ شام میں وسیع بدامنی کے بعد منظر عام پر آیا۔

دھشت گرد گروہ داعش عراق کی بعث پارٹی کے بچے کچے عناصر اور اسی طرح عراق میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سلفی اور تکفیری نظریات کے حامل افراد کے ساتھ تشکیل پایا اور پھر اس گروہ نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو عراق اور شام میں شروع کیا۔

امریکہ نے مغرب کے سرغنے کے عنوان سے اپنے یورپی اتحادیوں کے ہمراہ شام میں بحران کے سر اٹھانے کے ساتھ ہی اچھے اور برے دھشت گردوں کی اصطلاح پیش کرتے ہوئے اچھے دھشت گردوں کے عنوان سے داعش کی وسیع حمایت کا آغاز کردیا۔

مغرب کے اس اقدام کا مقصد شام کی قانونی حکومت کو سرنگون کرنا تھا اور اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے اس دھشت گرد گروہ کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا ہے۔

اس درمیان دھشت گرد گروہ داعش کی جانب سے مغرب کی ریڈ لائن کو عبور کرنا، یورپ اور امریکہ کے لئے ایک بہت بڑے خطر‏‏‏‏‏ے میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی واضح مثال تیرہ نومبر دو ہزار پندرہ میں پیرس اور دو دسمبر دو ہزار پندرہ میں برنار ڈینو کیلی فورنیا امریکہ کے وحشیانہ حملے ہیں۔

ان حملوں کے ساتھ یورپی اور امریکی حکام نے اعلان کیا کہ داعش کے خلاف ٹھوس کاروائی انجام دی جائے گی۔

اس اعلان کے باوجود ابھی تک امریکہ کی جانب سے شام میں دھشت گرد گروہ داعش کے خلاف، روس جیسے وسیع میزائیلی حملوں کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران داعش کو بنانے میں امریکی صدر باراک اوباما اور اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے براہ راست کردار پر سے پردہ اٹھایا تھا۔

ٹرمپ کا بیان در حقیقت، دنیا کے بعض ملکوں منجملہ روس کے صدر ولادیمیر پوتین کی جانب سے داعش کی تشکیل اور اس کے اقدامات میں وائٹ ہاؤس کے براہ راست کردار کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات کی تائید و تصدیق کے مترادف ہے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے اہداف و مقاصد حاصل کرنے کے لئے دھشت گرد گروہ داعش کی تشکیل اور اس کی تقویت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسری جانب امریکہ داعش کے خلاف بننے والے بین الاقوامی اتحاد کی قیادت کررہا ہے، لیکن اس شعبے میں امریکہ کی سچائی کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

اس درمیان دو ہزار پندرہ میں عراق میں امریکہ کی جانب سے فضائی راستوں کے ذریعے داعش کو لاجسٹک امداد فراہم کیئے جانے کی مصدقہ خبریں منظر عام پر آچکی ہے اور حتی بعض امریکی پائلٹوں نے اعتراف کیا ہے کہ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود، ہمیں داعش کے ٹھکانوں پر حملے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دھشت گرد گروہ داعش امریکہ اور اس کے اتحادیوں منجملہ سعودی عرب کی کوششوں سے شام کی قانونی حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کے لئے وجود میں آیا تھا، تو آج امریکہ داعش کے خلاف جنگ کا دعوی کرتا ہوا کیوں دیکھائی دے رہا ہے، آیا امریکہ داعش کو نابود کرنے کا ارادہ رکھتا یا داعش کی قوت کو محدود کرنے کے ساتھ، اپنے علاقائی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اس کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں ہے۔

 

ٹیگس