Dec ۲۷, ۲۰۱۶ ۱۷:۳۷ Asia/Tehran
  • صیہونی حکومت اور یورپی ممالک کی باہمی کشیدگی میں شدت

سنہ 1967 کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کی بنا پر صیہونی حکومت کی مذمت پر مبنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد دو ہزار تین سو چونتیس متفقہ طور پر منظور ہونے کے بعد یورپی ممالک کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔

صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس قرارداد کی حمایت کرنے کی بنا پر برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کے ساتھ اپنی ملاقات منسوخ کردی جس کے بعد برطانوی حکومت نے اسرائیلی وزیر اعظم کے اس اقدام کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ یوکرین کی وزارت خارجہ نے بھی پیر کے دن کیف میں تعینات اسرائیلی سفیر کوطلب کیا۔ اس سے قبل صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس قرارداد کے حمایت میں ووٹ دینے کی وجہ سے یوکرین کے وزیر اعظم ولادیمیر گرویس مین (Volodymyr Groysman) سے اپنی ملاقات کو منسوخ کر دیا تھا۔ اسرائیل نے مزید ایسے تیرہ ممالک کے ساتھ بھی اپنے سفارتی تعلقات کی سطح کم کر دی ہے جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔  

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر دو ہزار تین سو چونتیس کے سلسلے میں اسرائیل کے بوکھلانے اور اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے یورپی ممالک کے خلاف اقدامات انجام دینے سے ایک جانب صیہونی حکومت کی اپنے روایتی اتحادیوں کے مواقف سے ناراضگی کا پتہ چلتا ہے تو دوسری جانب اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ فلسطینی سرزمینوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کی غیر انسانی اور غیر قانونی پالیسی اس حد تک غیر منطقی اور بلاجواز ہے کہ حتی صیہونی حکومت کے مغربی اتحادیوں کے پاس بھی صیہونی حکومت کے اس اقدام کے خلاف عالمی برادری کا ساتھ دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چودہ اراکین نے جمعے کے دن مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ روکنے کے لئے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا اور اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے۔ حتی امریکہ نے، بھی کہ جو صیہونی حکومت کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کر دیا کرتا تھا، مجبورا اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور یوں یہ قرارداد منظور ہوگئی۔ اس قرارداد کے مطابق صیہونی حکومت اس بات کی پابند ہےکہ وہ فورا مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں منجملہ مشرقی بیت المقدس میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ مکمل طور پر روک دے۔ اسرائیل صیہونی بستیاں تعمیر کر کے فلسطینی علاقوں میں آبادی کا تناسب اور فلسطینی علاقوں کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کے درپے ہے ۔ اس طرح وہ فلسطینی سرزمینوں پر اپنا تسلط مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

دریں اثناء اسرائیل نے ممالک کے خلاف انتقامی اقدامات انجام دیئے یہن ان ممالک میں داخلی سطح پر جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ بھی توجہ طلب ہے۔ یوکرین میں اس بارے میں ملا جلا رد عمل دیکھا گیا ہے۔ یوکرین کی حکومت کے ناقدین نے دعوی کیا ہے کہ کیف کی جانب سے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیۓ جانے سے اسرائیل کے ساتھ یوکرین کے تجارتی سمجھوتے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔   یوکرین کے یہودیوں نے بھی اسرائیل مخالف قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کو حالیہ پچیس برسوں کے دوران یوکرین اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات میں سب سے بڑی رسوائی قرار دیا ہے۔ لیکن یوکرین کی وزارت خارجہ نے تاکید کی ہے کہ اس قرارداد کی حمایت پر منی کیف کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے سلسلے میں یوکرین کے فرائض کی بنیاد پر ہے۔ یوکرین نے اس قرارداد کے حق میں چاہے کسی بھی وجہ سے ووٹ دیا ہو اس سے یہ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ یوکرین اور اسرائیل کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ دریں اثناء بحر اوقیانوس کے اس پار یعنی امریکہ میں بھی ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کی بنا پر ڈیموکریٹس کی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قرارداد پر ووٹنگ سے قبل امریکہ کی جانب سے اسے ویٹو کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا اور اب انہوں نے اقوام متحدہ کی صورتحال کو بہت ہی غم انگیز قرار دیا ہے۔ البتہ ٹرمپ کی جانب سے ایسا بیان دیا جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ امریکی حکام ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ صرف ان کے اہداف اور مطالبات کو سامنے رکھ کر اقدامات انجام دے۔ یہ حکام فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے صیہونی حکومت کے مظالم کے خلاف حتی ایک نرم قرارداد کی منظوری بھی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔

 

 

ٹیگس