Jan ۰۹, ۲۰۱۷ ۱۴:۳۰ Asia/Tehran
  • میانماری مسلمانوں کے خلاف جاری تشدد

میانمار سے موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بودھسٹوں کی جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ عالم اسلام اور دنیا کی بیدار ضمیر شخصیات نے اس قسم کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے تشدد کا فوری طور پر خاتمہ کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔

میانمار میں علمائے اسلام تنظیم کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق انتہا پسند بودھسٹ، بے خوف ہو کر میانمار کے مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد اور جارحیت نیز ان کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے جارحانہ اقدامات کا دائرہ اور زیادہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ انتہا پسند بودھوں نے میانمار میں مسلمانوں کی ایک مذہبی تقریب شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر کے بعد حملہ کرتے ہوئے اس مذہبی تقریب کو منسوخ کئے جانے کا شدید دباؤ ڈالا۔ میانمار کی علمائے اسلام تنظیم کے اس عہدیدار اور تمام حریت پسندوں کے نقطہ نظر سے مذہبی اور قومی و نسلی مسائل سے قطع نظر، مسلمانوں کی مذہبی تقریت کی روک تھام  اور اس پر حملہ، کسی بھی ملک کے شہریوں اور آزادی مذہب پر حملہ ہے۔

مذہبی تقریب کی انتظامی کمیٹی کے نائب سربراہ کا کہنا ہے کہ میانمار میں انتہا پسند بودھ، ملک میں سیاسی اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی اس تقریب پر ایسی حالت میں حملہ کیا گیا ہے کہ اس قسم کی مذہبی رسومات، گذشتہ سات برسوں سے کسی مزاحمت و رکاوٹ کے بغیر انجام پاتی رہی ہیں۔

میانمار میں انتہا پسند بودھسٹ، ملک میں سیاسی اختلافات پیدا کرنے کے علاوہ ان اختلافات سے فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ ایک حساس مسئلہ ضرور ہے مگر اس سے بڑھکر حساس مسئلہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان انتہا پسند بودھسٹوں کو کس کی حمایت حاصل ہے اور آخر ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟۔

ابھی یہ بات ثابت نہیں ہے کہ یہ انتہا پسند بودھسٹ، میانمار کی فوج یا فوجی جنرلوں کی ہدایات پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس بات کے پیش نظر کہ فوجی اہلکار بھی میانمار کی سرحدوں کے اندر مسلمانوں کی سرکوبی میں ملوث ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کے خلاف تشدد و جارحیت اور ان کی سرکوبی میں انتہا پسند بودھسٹوں کو اس ملک کی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ اس لئے کہ میانمار کی فوج کا ڈھانچہ ابھی جوں کا توں باقی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے مذکورہ خیال کو تقویت بھی ملتی ہے اور اس سلسلے میں میانمار کی وزیر خارجہ اور حکومت میانمار کی اعلی مشیر مسز سان سوچی کی طرف انگلی اٹھی ہوئی ہے۔

میانماری مسلمانوں کا کہنا ہے کہ سوچی کو، جو حریت پسندی کی تحریک کے دوران تمام شہریوں کی آزادی کے حق میں نعرے بھی لگاتی رہی ہیں، چاہئے کہ میانماری مسلمانوں کی صورت حال واضح کریں۔ علاقے کی رائے عامہ کی نظر میں قوی امکان اس بات کا ہے کہ سوچی، یا تو میانماری فوج کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں یا پھر وہ میانماری مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں فوج کو رضامند کرنے پر قادر ہی نہیں ہیں۔

چنانچہ میانمار کے مختلف علاقوں میں فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، اسی پالیسی کی تصدیق کرتا ہے۔ بہرحال یہ وقت ہی بتائے گا کہ میانمار میں انسانی اقدار اور انسانی حقوق جیسے مسائل پر توجہ دینے سے سوچی کے گریز اور اس ملک میں جاری نسلی و امتیازی سلوک کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔

ٹیگس