Feb ۲۱, ۲۰۱۸ ۱۶:۰۰ Asia/Tehran
  • لبنانی صدر کے دورہ عراق کی اہمیت

لبنان کے صدر میشل عون، بیس فروری کو ایک دو روزہ دورے پر بغداد پہنچے اور عراقی وزیراعظم سے ملاقات و گفتگو کی۔

لبنانی صدر کا دورہ عراق کافی اہمیت کا حامل ہے - صدام کا تختہ الٹنے کے بعد یہ کسی لبنانی صدرکا پہلا دورہ عراق ہے - صدام کا تختہ الٹنے اور ان کی بعثی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق نے مختلف فرقوں کے درمیان طاقت کی تقسیم کے لئے لبنان ماڈل سے استفادہ کیا ہے- اس سلسلے میں لبنان کے امور کے تجزیہ نگار پیٹریک وایبرٹ کا کہنا ہے کہ عراق اور لبنان کے درمیان ایک مشترک چیز یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں مختلف فرقے پائے جاتے ہیں -

عراق ، شیعہ ، سنی اور کردوں پر مشتمل ہے اور لبنان کی آبادی شیعہ، سنی اور عیسائیوں پر مشتمل ہے - فرق صرف یہ ہے کہ لبنان میں تینوں فرقوں کی آبادی کا تناسب تقریبا برابر ہے لیکن عراق میں شیعہ مسلمانوں کی آبادی ساٹھ فیصد ہے اور سنی مسلمانوں و کردوں کی آبادی تقریبا بیس بیس فیصد ہے- عراق کے صدر فواد معصوم نے منگل کو لبنان کے صدر میشل عون سے ملاقات میں تاکید کے ساتھ کہا کہ عراق نے مختلف طبقوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لئے لبنان کو رول ماڈل بنایا ہے- لبنان میں صدارت کا عہدہ عیسائیوں کے پاس ہے اور پارلیمنٹ کے اسپیکر کا منصب شیعہ مسلمانوں کے پاس اور وزارت عظمی سنی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے- عراق میں صدارتی عہدہ کردوں کے پاس ہے وزارت عظمی شیعوں سے متعلق ہے اور پارلیمنٹ کے اسپیکر کا منصب اہلسنت کے پاس ہے-

عراق اور لبنان میں ایک اور مشترکہ چیز موجود ہے اور وہ یہ کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں شام سے ملتی ہیں اور دونوں ہی شام کے بحران سے متاثر ہوئے ہیں اور انھیں نقصان پہنچا ہے البتہ حزب اللہ کی موجودگی اور اس کی ملکی دفاع کی صلاحیتوں کی بنا پر لبنان کو کم نقصان پہنچا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ عراق کے پاس حزب اللہ جیسی طاقت نہ ہونے کے سبب جون دوہزارچودہ میں داعش دہشتگرد گروہ نے عراق پر یلغار کر کے اس ملک کے ایک تہائی حصے پر قبضہ کرلیا تھا- بحران شام اور داعش سے پہنچنے والے اسی نقصان کے باعث عراق میں شیعہ مسلمانوں کے عظیم مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے سے رضاکار فوج حشد الشعبی تشکیل پائی کہ جوحزب اللہ سے قریبی موقف ہونے کے باعث استقامتی محاذ کے زمرے میں شامل ہے اوراس نے عراق میں داعش دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے- عراقی صدر فواد معصوم کے ساتھ میشل عون کی گفتگو میں دونوں صدور نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرق وسطی میں قیام امن کی ضرورت پر تاکید کی ہے-

لبنان و عراق دونوں کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے کہ جو مشرق وسطی میں بدامنی و بحران پیدا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں قیام امن اور ثبات و استحکام کے حامی شمار ہوتے ہیں - اسی بنا پر لبنان ان عرب ممالک میں شامل ہے جنھوں نے کھل کر عراق سے کردستان کی علحدگی کی مخالفت کی اور میشل عون نے منگل کو فواد معصوم سے ملاقات میں ایک بار پھر تاکید کی کہ لبنان، عراق کے اتحاد اور اقتداراعلی کا حامی ہے-

آخری نکتہ یہ ہے کہ میشل عون کا دورہ عراق اور عراقی حکام سے ان کی ملاقات ایسے عالم میں انجام پائی ہے کہ بیروت اور بغداد میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اگرچہ میشل عون کا دورہ بغداد انخاباتی پہلو کا حامل نہیں ہے تاہم دونوں ملک اس سلسلے میں اپنے تجربات سے استفادہ کرسکتے ہیں اور دنیائے عرب میں آمرانہ شاہی حکومتوں کے لئے آئیڈیل بن سکتے ہیں- 

ٹیگس