جی سیون میں امریکہ الگ تھلگ
جی سیون میں امریکہ کے ساتھ شریک چھ ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں واشنگٹن کے یکطرفہ تجارتی اقدامات پر تشویش ظاہر کی ہے اور اس کے مقابلے میں ٹھوس قدم اٹھائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کینیڈا میں گروپ جی سیون کے وزرائے خزانہ کے اجلاس کے اختتام پر جرمنی، برطانیہ، اٹلی، جاپان، فرانس اور کینیڈا نے ایک بیان میں امریکہ کی تجارتی پالیسیوں پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیو منوچین Steven Mnuchin سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی تشویش سے امریکی صدر کو مطلع کریں-
مختلف شعبوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ اقدامات سے نہ صرف امریکہ کے حریف ملکوں چین اور روس کا غصہ بھڑک اٹھا ہے بلکہ اس وقت اس کے مغربی شریک ممالک چاہے وہ یورپی ممالک ہوں یا دیگر ممالک جیسے کینیڈا اور جاپان، سب ٹرمپ کے اقتصادی نظریے پر تنقید کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں-
اسی سلسلے میں جی سیون میں شامل دنیا کے چھ صنعتی ممالک نے اسٹیل اور المیونیم پر امریکہ کے نئے تجارتی ٹیرف کے مسئلے پر کھلی تنقید کی ہے۔ گروپ جی سیون کے چھ ملکوں کے وزرائے خزانہ کا حالیہ بیان اس امر کا غماز ہے کہ اب ان میں امریکہ کے خود سرانہ اور یکطرفہ اقدامات کو برداشت کرنے کی طاقت جواب دے گئی ہے اس لئے کہ ٹرمپ، " فرسٹ امریکہ" کے نعرے کے ذریعے دیگر ملکوں کے مفادات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ دنیا کے چھ بڑے صنعتی ملکوں کے بیان میں اسٹیل اور المونیم کی درآمدات پر عائد کی جانے والی امریکی ڈیوٹی کے خلاف ٹھوس قدم اٹھائے جانے کو ضروری جانا گیا ہے۔ اسی طرح ان چھ ملکوں کے وزرا خزانہ نے امریکی وزیر خزانہ منوچین سے کہا ہے کہ جی سیون کے آئندہ ہفتے کے اجلاس میں بھی اس سلسلے میں مذاکرات کئے جائیں۔ یورپی یونین کی کمشنر برائے تجارت سسلیا مالسٹروم کہتی ہیں کہ اگر دنیا کے اہم صنعتی ممالک قوانین کا احترام نہ کریں تو دنیا کے مالی اور اقتصادی نظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ کینیڈا میں جی سیون کے وزرائے خزانہ کا اجلاس تجارتی ٹیرف عائد کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے چند روز بعد منعقد ہوا ہے۔
یورپی یونین نے امریکی تجارتی ٹیرف کے مقابلے میں جوابی اقدامات کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یورپی یونین کے امور خارجہ کی انچارج فیڈریکا موگرینی نے کہا ہے کہ یورپ امریکی تجارتی ٹیرف کے مقابلے میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے لازمی تدابیر اختیار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین امریکی تجارتی ٹیرف کے مقابلے میں اپنے مفادات کے دفاع سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ کے وزیر تجارت ویلبر راس نے کہا ہے کہ یورپی یونین، کینیڈا اور میکسیکو سے امریکہ لائے جانے والے اسٹیل پر پچیس فی صد اور المونیئم پر دس فی صد ڈیوٹی ادا کرنا ہو گی اور اس پر پہلی جون سے نئے ٹریڈ کا اطلاق شروع ہو جائے گا۔ یورپی یونین ، امریکی تجارتی ٹیرف سے مستقل چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن امریکی وزیر تجارت نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو چین کی طرح نئے ٹیرف کے مطابق ڈیوٹی ادا کرنا ہو گی۔ امریکہ کے اس اقدام پر یورپی ملکوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور جرمن وزیر خارجہ ہیکوماس نے امریکہ کے مقابلے میں یورپ کے اتحاد پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے یورپی یونین، کینیڈا اور میکسیکو کو نئے تجارتی ٹیرف سے مستثنی رکھا تھا تاہم اب امریکی وزیر تجارت نے صاف صاف کہہ دیا ہے یہ چھوٹ اب ختم کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب کینیڈا کی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ نئے امریکی تجارتی ٹیرف کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں باضابطہ شکایت دائر کردی گئی ہے۔ ڈوئچے وولے ریڈیو کے مطابق کینیڈا کی وزیر خارجہ کرسٹینا فری لینڈ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اوٹاوا نے اپنی شکایت میں عالمی تجارتی تنظیم سے نئے امریکی تجارتی ٹیرف اور نیفٹا معاہدے کے بارے میں امریکی موقف کا جائزہ لینے کی اپیل کی ہے۔اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کینیڈا نے امریکہ کی جانب سے اسٹیل اور ایلمونیم پر عائدکی جانے والی ڈیوٹی کے مقابلے میں امریکہ سے درآمد کی جانے والی بارہ ارب آٹھ سو ملین کی تجارتی اشیا پر ٹیکس نافذ کردیا ہے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ کینیڈا کو چاہیے کہ وہ امریکی مصنوعات کے لیے اپنی منڈیوں کے دروازے کھول دے اور اس راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرے۔
کانگریس کے اعلی حکام نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئے تجارتی ٹیرف عائد کئے جانے کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے ممکن ہے کہ اس ملک کی معیشت خراب ہوجائے اور دیگر ملکوں کی جانب سے بھی جوابی کاروائی کی جائے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف بتدریج عالمی سطح پر صف بندی قائم ہو رہی ہے- ساتھ ہی یہ کہ کانگریس کے اعلی حکام کے درمیان بھی اس سلسلے میں مخالفتوں میں اضافہ ہوا ہے- ان تمام دباؤ اور مخالفتوں کا نتیجہ ممکن ہے عالمی سطح پر امریکہ اور ٹرمپ کے دن بہ دن الگ تھلگ پڑجانے اور واشنگٹن کے اپنے تجارتی شریکوں کے خلاف تجارتی جنگ پر منتج ہوجائے-