Dec ۱۵, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۷ Asia/Tehran
  • ہندوستان کی ڈالر سے وابستگی کم کرنے کی کوشش

ہندوستان کی وزارت تجارت نے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کی خبر دی ہے

ہندوستان کی وزارت تجارت نے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی غرض سے اپنے دو بڑے تجارتی شرکاء یعنی ترکی اورجنوبی کوریا کے ساتھ لیرا اور وون میں تجارت کرنے کا اعلان کیا ہے- ہندوستانی وزارت تجارت نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ توقع ہے کہ یہ اقدام بینکنگ کے اخراجات  میں کمی اور ترکی و جنوبی کوریا کے ساتھ تجارت میں آسانی پر منتج ہوگا- ہندوستان نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ اپنی تجارت میں روپیہ استعمال کرے گی - عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی صورت حال غیرمستحکم ہونے کے پیش نظر نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک نے بھی اپنی تجارت میں ڈالر کے بجائے قومی کرنسی سے استفادہ کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں- جاپان کے ساتھ چین کا سمجھوتہ ، روس کے ساتھ چین کا اتفاق اور اسی طرح بریکس کے رکن ممالک یعنی برازیل، روس ، ہندوستان ، چین اور جنوبی افریقہ کی جانب سے تجارت میں اپنی قومی کرنسی کا استعمال اسی سلسلے میں قابل توجہ ہے- قومی کرنسی سے استفادہ نہ صرف قوموں کے درمیان لین دین اور تجارت کو آسان بناتا ہے بلکہ اس سے عالمی سطح پر مالی و تجارتی اداروں کی خودمختاری میں بھی اضافہ ہوگا-

 ترکی کی تجارتی امور کی ماہر خدیجہ کاراہان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ خاص طور سے دوہزارآٹھ میں دنیا میں پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کے بعد ہونے والے نقصانات میں کمی کی کوشش بڑھ گ‏ئی ہے اور غیرملکی تجارت میں قومی کرنسی کا استعمال ، اقتصادی ترقی میں ایک نہایت اہم عنصر میں تبدیل ہوگیا ہے- اس سلسلے میں یورپ اورایران ، ترکی ، روس ، چین اور ہندوستان جیسے ممالک، دنیا کے موجودہ مالی تجارتی نظام میں اپنی قومی کرنسی کو ڈالرکا متبادل بنانے کی کوششیں کررہے ہیں-امریکہ کی ہیکڑی خطرے میں پڑنے اور عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں آنے والے اتار و چڑھاؤ کے پیش نظر دنیا کے مختلف ممالک اس نتیجے پر پنہچنے ہیں کہ وہ اپنی قومی کرنسی میں تجارت کرکے ڈالر پرانحصار کم کرسکتے ہیں- جاپان  کہ جو مشرقی ایشیاء میں امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی اور دنیا کے بڑے اقتصاد میں شمار میں ہوتا ہے ، تجارتی لین دین میں اپنی قومی کرنسی سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اس نے  ڈالر کی قدر میں کمی اور اس کی انٹرنیشنل کرنسی کی حیثیت ختم ہوجانے کے خطرے کو محسوس کرلیا ہے- یہ صورت حال پیدا ہونے کی جملہ وجوہات میں امریکہ کا عالمی بینک کا مقروض ہونا بھی ہے - حالیہ برسوں میں امریکی حکومت کے قرضے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ اس کی مقدار تقریبا بیس ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور اس وقت امریکی حکومت دنیا کی سب سے بڑی مقروض حکومت بن چکی ہے- اس رقم کا ایک تہائی حصہ دیگرممالک کے سینٹرل بینکوں سے متعلق ہے کہ جن میں چین کا ایک اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر اور جاپان کا ایک ٹریلین ڈالر کے ساتھ سب سے زیادہ حصہ ہے- امریکی قرضوں میں اضافہ بہت سے بین الاقوامی ماہرین اقتصیادیات کی تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس ملک کی حکومت کی اپنے قرضوں کی ادائگی میں عدم توانائی کا دنیا بھر کے اقتصاد پر گہرا اثرپڑے گا-

ہندوستانی ماہراقتصاد ایلا پٹنائک کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے تجارت میں قومی کرنسی سے استفادہ بہت بڑھ گیا ہے اور ایک مضبوط آئیڈیے میں تبدیل ہوگیا ہے ہندوستاان اس وقت چھے ملکوں سے تجارتی لین دین میں اپنی قومی کرنسی سے استفادہ کررہا ہے-

 بہرحال ڈالر میں عدم استحکام اس بات کا باعث بنا ہے کہ چین اور روس نے حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف کی جانب سے واحدعالمی کرنسی اختیار کرنا چاہا لیکن سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایسا نظر نہیں آتا کہ مستقبل قریب میں متحدہ عالمی کرنسی کے لئے دنیا میں اتفاق رائے پیدا ہو سکے گا-

ٹیگس