ٹرمپ کا اچانک دورہ عراق، قومی خودمختاری کے اصولوں کے احترام کے منافی
امریکی صدر ٹرمپ کے طیارے نے بدھ کی رات کو مغربی عراق کے ایک فوجی اڈے پر لینڈنگ کی-
عراق کے صوبہ الانبار کے لئے ٹرمپ کے بدھ کی رات کے دورے کے بارے میں اگرچہ عراقی وزیر اعظم کے دفتر کے بقول پہلے سے اعلان کیا گیا تھا تاہم اس سے یہ واضح ہوگیا کہ صوبہ الانبارکے عین الاسد ہوائی اڈے پر ٹرمپ کا اترنا، قومی خودمختاری کے اصولوں کے احترام کے منافی ہے اور ان کا یہ اقدام اور اس جیسے اقدامات کی تکرار کرنا، ٹرمپ جیسے آدمی سے خلاف توقع بھی نہیں ہے- ٹرمپ نے اس دورے میں عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی یا کسی بھی عراقی عہدیدار سے ملاقات بھی نہیں کی، اس کی وجہ ملاقات انجام پانے کے بارے میں اختلاف وجود میں آنا بتایا جاتا ہے- وہ چیز جس پر عراقی حکام نے بارہا تاکید کی ہے، عراق کی قومی حاکمیت اور اقتدار اعلی کے اصولوں کا احترام ہے اور ٹرمپ کا سیدھے صوبہ الانبار کا دورہ کرنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی صدر نے ان اصولوں پر توجہ نہیں کی ہے-
عراق کی قومی حاکمیت کے اصولوں سے امریکی صدر نے بے توجہی ایسے میں برتی ہے کہ عراق میں موجود امریکی فوج کے تجربے نے، اس وقت تمام عراقیوں کو اس بات پر متحد و متفق کردیا ہے کہ امریکی فوج کو عراق سے نکل جانا چاہئے- یہ ایسے میں ہے کہ ٹرمپ نے صوبہ الانبار کے عین الاسد فوجی اڈے میں داخل ہونے کے بعد کہا کہ وہ امریکی فوج کو ہرگز عراق سے واپس نہیں بلائیں گے- جبکہ ٹرمپ کا یہ موقف عراقی عوام اور سیاسی گروہوں کو قبول نہیں ہے- حالانکہ جس طرح سے شام میں داعش کی شکست کا بہانہ اس بات کا سبب بنا کہ ٹرمپ نے انیس دسمبر 2018 کو یہ اعلان کردیا کہ وہ اپنی فوج شام سے نکال رہے ہیں یہی بہانہ عراق میں بھی موجود ہے- داعش دہشت گرد گروہ کا ایک سال قبل ہی عراقی فوج کے ہاتھوں صفایا ہوچکا ہے اور اس سال دسمبر کے اوائل میں عراق کے مختلف علاقوں میں داعش کی شکست کی پہلی سالگرہ بھی منائی گئی ہے-
یہ جو ٹرمپ عراق میں امریکی فوج کو باقی رکھنے پر تاکید کر رہے ہیں اس کا ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے اور اس وقت داعش کی شکست کے بعد تو ان کے پاس عراق میں امریکی فوج کو باقی رکھنے کی کوئی دوسری دلیل باقی ہی نہیں رہ جاتی- شام سے اپنی فوج نکالنے اور عراق میں فوج کو باقی رکھنے پر ٹرمپ کی تاکید سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی پالیسیوں میں تضاد پایا جاتا ہے اگر ٹرمپ کے بعد والے جملے پر توجہ دی جائے، جو انہوں نے الانبار میں امریکی فوج کے اجتماع میں کہا تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد بھی اس ملک میں اس کی مداخلت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا اس لئے امریکی صدر نے عین الاسد فوجی اڈے میں کہا کہ اگر ہم شام میں کوئی کاروائی کرنا بھی چاہیں گے تو ممکن ہے کہ عراق کو اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کریں-
شام کے تعلق سے امریکی پالیسی میں یہ دوغلا پن، روسیوں کے موقف میں بھی قابل مشاہدہ ہے- روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا نے بدھ کو کہا ہے کہ ماسکو شام سے امریکی فوج کے نکلنے کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن اس اقدام کی وجوہات اور محرکات کے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم ہے- بہرحال اس وقت عراقی معاشرے سے جو ایک ہی صدا کانوں میں گونج رہی ہے وہ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت ہے اور یہ مسئلہ ایک قومی مطالبے میں تبدیل ہوچکا ہے- اسی سلسلے میں عراق کی النجباء تحریک کے ترجمان ہاشم موسوی نے بدھ کی رات کو ٹرمپ کے دورہ عراق کے ردعمل میں ، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عراق کی سرزمین امریکی فوجی اڈے کے لئے نہیں ہے، کہا کہ عراقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امریکی فوج کو، اس لحاظ سے کہ عراق میں اس کی موجودگی سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے، نکال باہر کریں-
جس وقت عراق میں داعش کا خطرہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اس وقت امریکی فوج سمیت کسی بھی غیر ملکی فوج نے عراقی حکومت کی مدد نہیں کی- اسی سلسلے میں عراقی فضائیہ کے کمانڈرمیجر جنرل "حامد عطیہ المالکی" نے حال ہی میں کہا ہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں جب داعش کا خطرہ بڑھ رہا تھا اس وقت غیر ملکی فوجیوں کے مشیر اپنے ملکوں کو فرار کرگئے- اس حقیقت کے پیش نظر ، ، عراق کے صوبہ الانبار میں ٹرمپ نے اپنے تین گھنٹے کے دورے میں جو بیان دیا ہے وہ کسی ہمدردی کی بنا پر نہیں ہے کہ وہ عراق میں سلامتی کا تحفظ کرنا چاہتے ہوں نہیں، بلکہ ان کے اس بیان سے کہ امریکی فوجی عراق میں باقی رہیں گے شکوک و شبہات وجود میں آتے ہیں کہ آخر کیوں شام سے فوجی نکالے جا رہے ہیں اور عراق میں کیوں باقی رہیں گے؟