Sep ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۸:۱۵ Asia/Tehran
  • مغربی ایشیا میں کشیدگی میں کمی کی کنجی ایٹمی معاہدے میں واپسی ہے: انجیلا مرکل

یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدہ، مغربی ایشیا اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں انتہائی اہم کردار کا حامل ہے-

یورپیوں کا خیال ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا نکل جانا ہی خلیج فارس اور مغربی ایشیا میں عدم استحکام اور کشیدگی میں اضافے کا سبب بنا ہے-اسی سلسلے میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے منگل سترہ ستمبر کو کہا کہ مغربی ایشیا میں کشیدگی میں کمی لانے کا واحد راہ حل ایٹمی معاہدے میں واپسی اور اس عالمی معاہدے کی پابندی کرنا ہے- مرکل نے منگل کو  اردن کے بادشاہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ برلین کا اس بات پر یقین ہے کہ کشیدہ حالات میں کمی لانے کے لئے، ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے ایٹمی معاہدے کی جانب رجوع کرنا چاہئے- جرمن چانسلر نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر یمن کے ڈرون حملوں کے بعد علاقے میں پیدا ہونے والی، تشویشناک کشیدہ صورتحال میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ ماننا ہے کہ سیاسی مذاکرات کی بنیاد پر ایک طویل اور استوار راہ حل تک پہنچا جا سکتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب پر ہونے والے تازہ حملے کے بعد واشنگٹن نے اپنے ردعمل میں صرف ایران پر انگلی اٹھائی ہے اور اسے ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے- درحقیقت ٹرمپ انتظامیہ پوری بے شرمی کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد کہ جس کے نتیجے میں علاقے میں کشیدگی میں اضافہ اور خلیج فارس عدم استحکام سے دوچار ہوا ہے، چشم پوشی کرتے ہوئے  اپنے غلط فیصلوں پر اڑی ہوئی ہے- 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی ٹرائیکا اور یورپی یونین کا بھی ماننا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے اور اس سمجھوتے کے منسوخ ہونے کی صورت میں، علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے- یورپی ممالک ایٹمی معاہدے کو کثیرالجہتی معاہدے کا ایک آئیڈیل قرار دیتے ہیں کہ جس سے عالمی تنازعات کو حل کرنے میں ایک مثالی نمونے کے طورپر مدد لی جا سکتی ہے-

عالمی و علاقائی امن و استحکام کے تحفظ میں ایٹمی معاہدے کی کارکردگی اور کردار پر یورپی یونین کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے جرمن چانسلر کا نقطہ نگاہ، ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ٹرمپ انتظامیہ کے رویے اور طرز فکر کے بالکل منافی ہے- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا یہ دعوی کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے مدنظر اہداف  اور مفادات کی تکمیل نہیں ہوسکتی اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ایران کی ایٹمی پیشرفت میں یہ معاہدہ، بنیادی طور پر مانع اور رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے- امریکی صدر ٹرمپ ، صیہونی حکومت کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے جاری رہنے کے بے بنیاد دعوے پر کان دھرتے ہوئے، مئی 2018 کو ایٹمی معاہدے سے نکل گئے تھے اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے دائرے میں انہوں نے دو مرحلوں میں ایران کے خلاف سخت پابندیاں عائد کردی ہیں کہ جن میں سے اہم ترین ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانے کے مقصد سے تیل کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہے-

ایران کے خلاف واشنگٹن کی اقتصادی پابندیاں اور دباؤ ، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا سبب بنا ہے کہ جس کے نتیجے میں گذشتہ مہینوں کے دوران  آبنائے ہرمز اور خلیج فارس میں حالات مزید کشیدہ ہوئے ہیں- ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف دباؤ اور دھمکانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں ایران کے تمام اقدامات ، امریکہ کے دھمکی آمیز اقدامات کا مقابلہ کرنے کی غرض سے دفاعی رہے ہیں- علاقے کے حالات مزید کشیدہ ہونے کے سبب یورپی ملکوں کی تشویش بڑھ گئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ علاقے میں ، کشیدگی کے خاتمے کی پالیسی اپنائے جانے کی ضرورت ہے- فرانس کے وزیر خارجہ جان ایو لودریان کے بقول : کشیدگی کے خاتمے پر مبنی ایک اسٹریٹیجی اپنائی جانی چاہئے- اور ہر وہ رویہ جو کشیدگی کے خاتمے کے منافی ہو، اس سے علاقے پر برے اثرات مرتب ہوں گے- 

علاقے میں امن و سلامتی کے قیام کی یورپیوں کی خواہش کے باوجود مغربی ایشیا اور خاص طور پر خلیج فارس کے علاقے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے تعلق سے امریکی اقدامات اور مواقف سے کچھ اور ہی ظآہر ہوتا ہے- امریکہ علاقے میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے اور سمندری اتحاد قائم کرنے کے ذریعے کہ جس میں اب تک صرف تین ملک شامل ہوئے ہیں ، خلیج فارس میں جہازرانی کی نام نہاد سلامتی و تحفظ کا خواہاں ہے- اور اب اس نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر یمنی فوج کے حالیہ ڈرون حملوں کے بعد ، ایران کے خلاف اپنے دھمکی آمیز بیانات میں اضافہ کردیا ہے- تہران نے بھی اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ بھی امریکہ کی فوجی دھمکی سمیت ہر طرح کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے-                 

ٹیگس