شمالی شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کے بارے میں ٹرمپ کابیان، قول و فعل میں تضاد
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر 2018 میں شام سے امریکی فوج کے انخلا کا حکم صادر کیاتھا لیکن اندرون ملک مخالتفوں کے سبب ٹرمپ اس مسئلے کو التوا میں ڈالنے پر مجبور ہوگئے- لیکن شمالی شام کے کرد علاقوں پر، ترکی کی جانب سے حملے کی دھمکی، امریکی فوج کے انخلا کا حکم صادر کرنے کا باعث بن گئی-
شمالی شام پر بدھ نو اکتوبر سے ترکی کے حملے کے آغاز کے ساتھ ہی، ٹرمپ اس سلسلے میں ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں- امریکی صدر نے، کہ جن پر شمالی شام میں ترکی کی فوجی کاروائی کے سبب اندرون و بیرون ملک شدید تنقیدوں کا سامنا ہے، اس بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے- ٹرمپ نے اس بیان میں کہا ہے ترکی نے نیٹو کے ایک ملک کی حیثیت آج شام پر اپنے حملے کا آغاز کیا ہے- اگرچہ امریکہ اس حملے کی حمایت نہیں کرتا تاہم ترکی کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہے کہ یہ آپریشن ایک برا خیال ہے-
ٹرمپ نے ایسی حالت میں شام میں ترکی کاروائی کی حمایت نہ کرنے کی بات کہی ہے کہ تین روز سے کم عرصے میں اردوغان کی ٹرمپ سے ٹیلیفونی گفتگو اور شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد، انقرہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی شروع کردی ہے- امریکی صدر نے اپنے ایک تازہ بیان میں شمالی شام سے سارے امریکی فوجیوں کو نکالنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں اب ایک بھی امریکی نہیں ہے- ٹرمپ نے کہا کہ میں نے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے وقت سے ہی صراحت سے یہ بات کہہ دی تھی کہ میں کبھی ختم نہ ہونے والی اور بے معنی جنگوں میں شرکت کرنا نہیں چاہتا خاص طور پر وہ جنگیں کہ جو امریکی مفادات میں نہیں ہیں-
امریکی صدر کے بقول ترکی نے عام شہریوں اور عیسائیوں سمیت مذہبی اقلتیوں کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور اسی طرح یہ بھی اطمئنان دلایا ہے کہ شمالی شام میں اس کی کاروائیوں کے نتیجے میں انسانی المیہ رونما نہیں ہوگا اور واشنگٹن ، ترکی کی جانب سے کئے گئے ان وعدوں پر عمل کا جائزہ لیتا رہے گا- اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی جانب سے شام پر ترکی کے حملے کی عدم ممانعت کے باعث امریکہ کے ریپبلیکن اور ڈموکریٹس سینئر قانون سازوں نے ٹرمپ کے اس اقدام پر کڑی نکتہ چینی کی ہے کیوں کہ کرد اتحادی، داعش کے خلاف آپریشن میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی شمار ہوتے تھے-
ٹرمپ کے اس بیان نے ایک بار پھر داعش کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کے کرد اتحادیوں کی حمایت کے سلسلے میں اپنے دعووں کے تعلق سے امریکی موقف کے دوغلے پن کو ثابت کردیا ہے- ٹرمپ نے ایک طرف تو بظاہر شمالی شام پر ترکی کے حملے کی بابت اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کاروائیاں ایک برا خیال ہیں لیکن عملی طور پر اس علاقے سے امریکی فوجیوں کو نکل جانے کا حکم صادر کرکے اور ان حملوں کا مقابلہ نہ کرنے کے سبب ، انقرہ کے لئے اس کاروائی کا راستہ صاف کردیا ہے-
اس طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ٹرمپ اپنے علاقائی اتحادیوں کو صرف ایک آلہ کار کے طورپر دیکھتے ہیں اوربس اسی وقت تک ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ جب تک اس سے واشنگٹن کا مفاد وابستہ ہو اور جب بات ترکی کے ساتھ نیٹو اتحاد برقرار رکھنے جیسے زیادہ اہم مفادات کی ہو تو ، ٹرمپ انتظامیہ، آسانی کے ساتھ کم اہمیت والے اتحادیوں یعنی شامی کردوں کا بلی بکرا بنا دیتی ہے-
البتہ ٹرمپ نے بہت زیادہ تنقیدوں کے پیش نطر ایک بار پھر شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے لئے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے- ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا کہ امریکہ نے مغربی ایشیا میں سلامتی کے تحفظ اور جنگ کے لئے آٹھ کھرب ڈالر خرچ کیا ہے ۔ ہمارے ہزاروں فوجی مارے گئے ہیں یا بری طرح وہ صدمے سے دوچار ہوئے ہیں ۔ امریکہ کا مشرق وسطی میں قدم رکھنا ہی ایک بدترین فیصلہ تھا کہ کہ جسے واشنگٹن نے انجام دیا ہے-
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ٹیلیفونی گفتگو کے بعد پیر کے دن اعلان کیا تھا کہ چونکہ ترکی شمال مشرقی شام کے علاقوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتا ہے اس لئے امریکا ان علاقوں سے اپنے فوجیوں کو نکال رہا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان ایسی حالت میں دیا ہے کہ شام کے کرد امریکا کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں اور امریکا نے بارہا یہ اعلان کیا تھا کہ ترک فوج نے ان کے خلاف کوئی حملہ یا کارروائی انجام دی تو امریکی فوج ان کی حفاظت کرے گی۔امریکی صدر کے فتنہ انگیز بیان کے بعد ترک صدر رجب طیب اردغان نے بھی اعلان کیا کہ وہ شمالی مشرقی شام میں کردوں کے خلاف فوجی کارروائی انجام دیں گے جس کی، اسلامی جمہوریہ ایران، روس ، چین ، بعض عرب ملکوں اور یورپی یونین نے سخت مخالفت کی اور اس جارحیت کے نتائج کی جانب سے خبردار کیا ، لیکن ترک فوج نے ان تمام انتباہات کو نظرانداز کرتے ہوئے بدھ کی شام سے صدر رجب طیب اردوغان کے فرمان سے شام کے خلاف جارحیت کا آغاز کردیا