Feb ۱۵, ۲۰۲۰ ۱۶:۲۰ Asia/Tehran
  • علاقے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لئے مزاحمتی محور اور اسلامی ملکوں میں اتحاد کی ضرورت

آج مزاحمتی محور صرف ایران نہیں ہے بلکہ مزاحمتی محور کا وسیع و عریض دائرہ ، بحیرۂ احمرسے بحیرۂ روم تک اور تحریک انصار اللہ یمن سے حزب اللہ لبنان تک پھیلا ہوا ہے-

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے یمن کے المسیرہ ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہ سبھی اسلامی ممالک اور مزاحمتی محور کو چاہئے کہ علاقے سے دہشت گرد امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کے لئے متحد ہوجائیں-

جنوبی لبنان میں مزاحمتی تحریک ہمیشہ سے، غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے- یہ مزاحمت 1982 سے اب تک جاری ہے- سن دوہزار میں لبنان سے صیہونی حکومت کا ذلت آمیز فرار، دوہزار چھ میں لبنان میں تینتیس روزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست، دوہزار نو میں غزہ کے خلاف بائیس روزہ جنگ اور دوہزار چودہ میں غزہ ہی کے خلاف اکیاون روزہ جنگوں میں اسرائیل کی ذلت آمیز شکست، یہ سب لبنان میں مزاحمتی تحریک کی کامیابیاں ہیں-جس وقت لبنان میں 33 روزہ جنگ انجام پائی اس وقت  بہت سے تجزیہ نگار حیرت زدہ ہوکر مزاحمتی محاذ کی فتح کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے اور یہ اعتراف کر رہے تھے کہ علاقے کا توازن تبدیل ہونے کا وقت آن پہنچا ہے- 

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک پیغام میں، اس جنگ میں لبنانی عوام کی کامیابی کی مناسبت سے ایک پیغام میں فرمایا تھا کہ لبنان ، عوام کی شجاعت و ہمت کی برکت سے کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ دشمن نے یہ غلط اندازہ لگایا تھا کہ وہ لبنان پر حملے کے ذریعے، علاقے کے ایک کمزور ملک کو نشانہ بنا رہا ہے اور وہ مشرق وسطی میں جس طرح سے چاہے گا اپنی من مانی کر سکے گا اور مشرق وسطی کے فریب کارانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکے گا- لیکن لبنانی عوام کے غیرت مند جوانوں اور ہوشیار و فہیم سیاستدانوں نے دشمن کے منھ پر زوردار طمانچہ رسید کرکے، اسے اس غفلت سے باہر نکالا- اس شکست کی ایک واضح ترین علامت ، اسرائیلی فوج کی خود اعتمادی کا تانا بانا بکھرجانا ہے کہ جسے ناقابل تسخیر فوج سے تعبیر کیا جاتا تھا- 

آٹھ جنوری کو سپا ہ پاسداران انقلاب اسلامی نے، عراق کے دارالحکومت بغداد ایئر پورٹ پر قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ افراد کو امریکی دہشت گرد فوج کے حملے میں قتل کئے جانے کے جواب میں، مغربی عراق کے صوبے الانبار میں واقع امریکی فوجی چھاؤنی عین الاسد پر تیرہ میزائل داغے تھے اور اس طرح سے مزاحمتی تحریک کے ایک نئے باب کا آغاز کردیا- علاقے میں امریکی دہشت گرد فوجیوں کے خلاف ایران کے اس پہلے جواب نے ، بہت سے اسٹریٹیجک تجزیہ نگاروں کو علاقے میں غاصب فوجیوں کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی طاقت کے بارے میں نیا نظریہ پیش کرنے پر مجبور کردیا- ان نظریوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ان دنوں مزاحمتی محور علاقائی سطح پر اصلی اور اہم بازیگروں میں تبدیل ہوچکا ہے- عراق میں داعش کی شکست، شام میں مزاحمتی محاذ کی پے درپے کامیابیاں اور یمن میں انصاراللہ کی کامیابیاں، علاقے میں مزاحمت کے اہم کارنامے ہیں-

اسلامی جمہوریہ ایران میں یمن کے سفیر ابراہیم محمد الدیلمی نے شہید سلیمانی سے متعلق ایک کانفرنس میں ، مزاحمتی محور کے اتحاد پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں امریکی فوجی چھاؤنی عین الاسد پر ایران کا میزائل حملہ ایک طمانچہ تھا اور مزاحمتی فورس اس سے زیادہ اور موثر اقدامات انجام دے گی اور یہ ثآبت کرے گی کہ مزاحمتی محاذ ہمیشہ موثر اور فعال رہے گا-

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے دہشت گرد امریکیوں کے ہاتھوں سردار محاذ استقامت جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو اس خطے میں امریکی وجود کے اختتام کا نقطہ آغاز قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ  استقامتی محاذ  پہلے سے زیادہ  عزم راسخ کے ساتھ ، اپنی امنگوں کی تکمیل کے ساتھ ہی شہیدوں کے خون ناحق کا انتقام بھی لے گا -

ایران علاقے کی سلامتی کے تحفظ کے لئے پوری قوت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی ، کہ جو علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بے مثال کردار کے حامل تھے، کی شہادت اس  پرافتخار راہ کو جاری رکھنے میں ایران کے پختہ عزم اور استقامت کی علامت ہے- اس بنا پر بعض کوتاہ نظر افراد کے تصور کے برخلاف  شہید جنرل سلیمانی کا مشن لمحہ بہ لمحہ کسی وقفے یا شک وتردید کے بغیر پوری قوت سے جاری رہے گا- جیسا کہ جنرل سلیمانی کی شہادت کے چند ہی گھنٹے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے حکم میں،  شہید جنرل قاسم سلیمانی کی سپاہ قدس میں گرانقدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور جنرل قاسم سلیمانی کے نائب بریگیڈئر جنرل اسماعیل قا آنی کو سپاہ قدس کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔ اس حکم میں رہبر انقلاب نے فرمایا ہے کہ جنرل قا آنی کا مشن بھی، شہید سلیمانی کا ہی مشن ہے

بلا شبہ  علاقے میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد جو صورتحال رونما ہوئی اس سے اس خطے میں امریکی وجود کے اختتام  اور استقامتی محاذ کی کامیابی کے نئے مرحلے کا آغاز ہوا ہے۔ ایسے میں اسلامی ملکوں اور مزاحمتی  طاقتوں  کے درمیان اتحاد ، عالم اسلام کے ایک اہم ترین مسئلے کے طور پر فلسطین کی سرنوشت، اور سنچری ڈیل سے موسوم ٹرمپ کے شیطانی منصوبے کی شکست پر اہم اثر مرتب کرے گا-- 

         

ٹیگس