ایٹمی معاہدہ ٹوٹا تو برق رفتاری سے پرامن ایٹمی پروگرام چلائیں گے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں تہران پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو جدید ترین سطح پر ترقی دینا شروع کردےگا۔
امریکی ٹیلی ویژین چینل المانیٹر کو انٹرویو دیتے ہوئےایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی صورت میں ایران کے پاس متعدد راستے موجود ہیں تاہم کوئی بھی فیصلہ وسیع تر قومی مفادات کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ایران کے وزیر خارجہ نے کھل کر یہ بات کہی کہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں اور پچھلے پندرہ ماہ کے دوران اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کے اقتصادی فوائد حاصل نہ کرپائے لہذا امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کی صورت میں ہماری معیشت متاثر نہیں ہوگی۔وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کی صورت میں ایران کا سب سے اہم قدم یہ ہوگا کہ ہم پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو فوری طور سے انتہائی ترقی یافتہ سطح پر لے جائیں گے۔انہوں نے امریکہ کو جامع ایٹمی معاہدے میں باقی رکھنے کی غرض سے ایران پر دباؤ بڑھانے سے متعلق جرمنی اور فرانس کی پالیسی کو سیاسی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یورپ کو اپنے مفادات عزیز ہیں تو اسے ایران پر دباؤ بڑھانے کے بجائے امریکی صدر کو ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے اور اس پر ٹھیک ٹھیک علمدرآمد کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ ایٹمی معاہدہ صرف ایران کے مفادات کو پورا کرتا ہے لہذا اس میں ایسی تبدیلیاں ضروری ہیں جن سے واشنگٹن کے مفادات پورے ہوسکیں۔
ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے میں امریکہ کے باقی رہنے کو، ایران کی فوجی تنصیبات تک رسائی ، میزائل پروگرام پر پابندی عائد کرنے اور بعض دوسرے معاملات سے مشروط کردیا ہے۔امریکی صدر نے کانگریس اور یورپی یونین کو ایٹمی معاہدے میں مطلوبہ ترامیم کے لیے بارہ مئی تک کی مہلت دی ہے بصورت دیگر ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے
۔ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکانے کی امریکی کوششوں کا رخ اب اس عالمی معاہدے کو مکمل طور پر سبوتاژ کرنے کی سمت ہوگیا ہے۔
ایٹمی معاہدہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیان طے پایا ہے جس پر جنوری دوہزار سولہ سے عمل درآمد بھی شروع ہوگیا ہے، لیکن امریکا اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔