امریکا قرارداد 2231 کی من مانی تشریح نہیں کرسکتا، ایران
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرنے کی امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کوششوں کے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ ممالک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تشریح دوسروں پر مسلط کریں۔
ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ امریکا نے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک ایک ایسے وقت جب اربوں ڈالر کے ہتھیار یمن کےعوام کا قتل عام کرنے کے لئے جارح قوتوں کو دے رہے ہیں تو ان کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ قرارداد بائیس اکتیس میں میزائلوں سے متعلق شق کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کریں۔
فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے کہ جن کے ملک نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ایران کے سلسلے میں واشنگٹن اور پیرس کا ہدف مشترک ہے اور ایٹمی معاہدے کی شقوں کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے لئے مذاکرات پھر سے ہونے چاہئیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے بے بنیاد دعوؤں کا اعادہ کیا اور کہا کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونا چاہئے۔
ٹرمپ کا یہ تکراری بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے اب تک کی پندرہ رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے اور اس نے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا ہے۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کے بعد سے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی تھی اور کوشش کرتارہا کہ ایران کو اقتصادی فوائد حاصل نہ ہوسکیں اور پھر مئی دوہزاراٹھارہ میں امریکا نے اس معاہدے سے نکلنے کا بھی اعلان کردیا۔ ایٹمی معاہدے سے نکلنے اور ایران پر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔