Feb ۰۵, ۲۰۲۱ ۱۸:۴۹ Asia/Tehran
  • یورپی ٹرائیکا کے نئے وعدے اور نئے شوشے

یورپی ٹرائیکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرنے کے بدلے ایران کے اقتصادی مفادات پورے کرنے کی پیشکش کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے مغربی سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کو پیشکش کی ہے وہ اقتصادی مفادات کی تکمیل کے بدلے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد پھر سے شروع کر دے۔

نیوز ایجنسی نے اس سے ایک گھنٹہ پہلے چار مختلف ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کو پھر سے زندہ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے والے ہیں۔

 یہ خبر قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سالیوان کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے جس  میں انہوں نے کہا تھا کہ، بائیڈن انتظامیہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے متفقہ موقف تک پہنچنے کے لیے صلاح  و مشورے کر رہی ہے۔

 بائیڈن انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے چند روز کے دوران بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن دوہزار اٹھارہ میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

 نئی امریکی حکومت نے ایٹمی معاہدے میں واپسی کی خواہش تو ظاہر کی ہے لیکن اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا کہ وہ کس طرح سے ایٹمی معاہدے میں واپس آئے گی۔

اگرچہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی اور سلامتی کونسل سے توثیق شدہ عالمی معاہدے سے الگ ہو گیا لیکن بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار اشاروں اور کنایوں میں یہ بات کر چکے ہیں کہ اس معاہدے میں امریکہ کی واپسی، ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر مکمل عملدرآمد سے مشروط ہے جبکہ ایران پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ، تہران نے امریکہ کی جانب سے وعدہ خلافی اور معاہدے سے نکل جانے کی وجہ سے  ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کی تھی لہذا اس کی واپسی کا عمل پابندیوں کے عملی طور پر خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہوگا۔

اسی دوران فرانسیسی صدر عمانوئیل میکرون نے ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے ایٹمی معاملے میں "سچے اور وعدہ پابند ثالث"  کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ میکرون کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے ڈائیلاگ میں شامل ہونے کے کسی بھی اقدام کی حمایت کریں گے اور اس کے لیے جو بھی ان کے بس میں ہوا انجام دیں گے۔

فرانسسی صدر نے یہ دعوی ایسے وقت میں کیا جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے بعد ان کی حکومت، ایران کے لیے بنائے گئے محدود مالیاتی نظام انسٹیکس پر عملدرآمد کرنے پر بھی قادر نہیں تھی۔

عمانوئل میکرون نے ایک بار پھر، اپنے زعم ناقص میں ایران کے ساتھ نئے مذاکرات میں سعودی عرب سمیت خطے کے بعض ملکوں کی شمولیت کی بات کرتے ہوئے کچھ دعوے کیے اور درخواست کی کہ نئے مذاکرات میں سعودی عرب اور اسرائیل کی شمولیت کا راستہ نکالا جائے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان برسوں تک جاری رہنے والے دشوار ترین مذاکرات کے بعد سن دوہزار پندرہ میں موجودہ  ایٹمی معاہدہ طے پایا تھا۔

 فرانسیسی صدر نئے مذاکرات کا شوشہ ایسے وقت میں چھوڑ رہے ہیں جب ایران پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ وہ کسی صورت میں اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں نئے سرے سے مذاکرات نہیں کرے گا۔

صدر ایران حسن روحانی نے گزشتہ بدھ کو کابنیہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ، نہ تو ایٹمی معاہدے کی کسی شق میں   تبدیلی آئے گی اور نہ ہی اس کے ارکان کی تعداد میں کسی کا اضافہ ہوگا۔

ٹیگس