امریکا کے منہ پر ایران کا اسمارٹ طمانچہ!!!
ایران نے امریکا کی بائیڈن انتظامیہ کے منہ پر بڑا اسمارٹ طمانچہ رسید کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے کے بعد ایران پر جو پابندیاں عائد تھیں ان میں سے کچھ کو بائیڈن انتظامیہ نے ہٹانے کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دینے کی کوشش کی تاکہ اس سے امریکا کی نیک نیتی ثابت ہو تاہم ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے دو ٹوک جواب دیا کہ یہ اچھا قدم ہے، اچھی نیت کا اظہار ہے لیکن کافی نہیں ہے۔
واضح طور پر یہ دو ٹوک جواب ایران کی مضبوط پوزیشن کی علامت ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ایران، امریکا کو کوئی امتیاز دینے کے لئے تیار نہیں ہے، یعنی ایران نے ایٹمی شعبے میں جو پیشرفت کی ہے اسے امریکا کی خواہش پر قربان نہيں کرے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو امریکا پر اعتماد نہيں ہے۔ ایران کے نئے صدر سید ابراہیم رئیسی رہبر انقلاب اسلامی کے بہت قریبی مانے جاتے ہیں اور وہ بھی ایٹمی شعبے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ہاتھ سے نکل جانے کے بلکل بھی موڈ میں نہیں ہیں اور نہ ہی میزائل، آبدوز اور ڈرون طیاروں کی ٹکنالوجی کے میدان میں جاری تیز پیشرفت کی رفتار کم کرنے پر آمادہ ہیں۔
ایران کے طاقتور عہدیدار علی شمخانی جو اعلی قومی سیکورٹی کونسل کے سکریٹری بھی ہیں، ٹوئٹ کر چکےہیں کہ تہران ایٹمی تحقیقات اور پیشرفت کو رکنے نہیں دے گا۔ اس حق کو کوئی بھی سمجھوتہ محدود نہیں کر سکتا۔ یہاں علی شمخانی کا وہ تاریخی بیان بھی ذکر کرنے کا دل چاہتا ہے جس میں انہوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کی بمباری کی دھمکیوں کے جواب میں کہا تھا کہ یہ جنگی طیارے حملہ کرنے کے بعد تل ابیب نہیں لوٹ پائیں گے کیونکہ انہیں کوئی رن وے نہيں ملے گا جہاں اتر سکیں، یعنی ان کی واپسی سے پہلے اسرائیل مٹ چکا ہوگا۔
ایران ویانا مذاکرات میں تب گیا جب اس نے پہلے ہی اپنی داخلی سیکورٹی کے محاذوں کو مضبوط کر دیا، اپنے غیر ملکی اتحادیوں کو پختہ کر لیا اور سیاسی نیز سیکورٹی دونوں پہلوؤں سے اپنی طاقت بڑھا لی ہے۔ ایران کی مذاکرات کار ٹیم نے امریکی ٹیم کے ساتھ میز پر بیٹھنا قبول نہيں کیا۔ اس طرح ایران نے امریکا کو بری طرح بے عزت کر دیا۔
بائیڈن انتظامیہ کی حالت دیکھی جائے تو آج دو محاذوں پر اسے بڑی جنگ کا سامنا ہے۔ ایک محاذ یوکرین کا ہے جہاں امریکا کے مقابلے میں روس کھڑا ہے اور دوسرا محاذ تائیوان کا ہے جہاں امریکا کا سامنا چین سے ہے۔ ان حالات میں کیا امریکا، ایران سے ٹکرانے کی حماقت کر سکتا ہے؟!
آنے والے دنوں میں امریکا کی کمزور بائیڈن حکومت ہمیں دلدل میں ڈوبتی نظر آئے گی اور اس کے ساتھ ہی اس کا اتحادی اسرائیل اور اس کی قریبی عرب حکومتیں بھی اپنی غلطیوں کے ساتھ ہی امریکا کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتیں گی۔
سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے