ایران کے ایٹمی معاہدے میں رابرٹ مالی کا کیا ہے کردار؟
امریکی جریدے نیوز ویک نے کلاڈیا ٹی نی کا ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ ایران کے مسئلے میں بائیڈن کے خصوصی مندوب رابرٹ مالی امریکی کانگریس کے سامنے کھلی کارروائی کے لئے پیش نہيں ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے تہران کے ساتھ ہو رہے مذاکرات کی صحیح صورتحال سامنے نہيں آ پا رہی ہے۔
خاتون مقالہ نگار کا دعوی ہے کہ بائیڈن حکومت کو یہ خوف ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں کچھ ایسے ثبوت سامنے آ سکتے ہیں جن پر ممکنہ طور پر کانگریس متفق نہيں ہوگی اسی لئے بائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ یہ باتیں کانگریس کے سامنے نہ آنے پائیں۔
کلاڈیا ٹی نی نے کہا کہ بائیڈن حکومت کا دوسرا سال شروع ہو چکا ہے تاہم اب تک رابرٹ مالی کانگریس کے سامنے پیش نہيں ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ مالی نے کانگریس کے سامنے کھلی کارروائی میں سوالوں کے جواب دینے کے لئے پیش ہونے سے انکار کیا جبکہ ان کے سابق ہم منصب برائن حک کئی بار کانگریس کے سامنے پیش ہو ہوئے تھے۔
مقالہ نگار لکھتی ہیں کہ انہوں نے کچھ دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر وزیر خارجہ اینٹنی بلینکن کو خط لکھا تھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مالی کانگریس کے سامنے پیش ہوں تاہم وہ بند دروازے کے پیچھے ہونے والے اجلاس میں پیش ہوئے، کھلے اجلاس میں شرکت کے لئے تیار نہيں ہوئے۔
ٹی نی نے کہا کہ کئی چیزوں ہیں جن کی وجہ سے مالی کھلی گواہی دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس وقت جب روس پوری طاقت کے ساتھ جنگ یوکرین میں مصروف ہے، بائیڈن انتظامیہ ایران کے ایٹمی معاہدے کو روس کے ساتھ مل کر حتمی شکل دے رہی ہے۔
ٹی نی نے لکھا کہ ویانا مذاکرات سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق نیا معاہدہ بہت قریب ہے اور یہ معاہدہ گزشتہ سے بھی برا ہے۔
ٹی نی نے لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی عوام کو یہ نہیں بتانا چاہتی کہ ایران کو کچھ قدم پیچھے ہٹنے کے عوض میں پابندیوں میں اتنا بڑی رعایت ملنے والی ہے کہ اس سے تہران 90 ارب ڈالر کی رقم حاصل کر لے گا۔
ٹی نی کے مطابق امریکا، ایران کے متعدد حکام، اداروں اور سپاہ پاسداران انقلا اسلامی کو بلیک لسٹ سے نکال سکتا ہے۔