صیہونیوں نے بڑی غلطی کی ہے، جواب یقینی ہے: صدر ایران
ایران کے صدر نے تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کو صیہونیوں کی ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کے اس اقدام کا جواب یقینی طور پر دیا جائے گا۔
سحر نیوز/ایران: ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اپنا یہ موقف گزشتہ روز اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی سے ہونے والی ملاقات کے دوران پیش کیا جو گزشتہ روز شاہ اردن کا خصوصی پیغام لے کر ایران پہنچے تھے۔ اس موقع پر صدر ایران نے اپنے ملک کے مہمان کے بزدلانہ قتل کو تمام بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور صیہونیوں کی بڑی غلطی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو توقع ہے کہ تمام اسلامی ممالک اور دنیا کے سبھی حریت پسند اس قسم کے جرائم کی مذمت کریں گے۔ ڈاکٹر پزشکیان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ صیہونیوں کی اس گستاخی کا جواب ضرور دیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج دنیا میں حق و باطل کی جگہ تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اور ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
صدر مملکت نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں یہ امید ظاہر کی کہ ایران اور اردن کے درمیان تعلقات کی بحالی کے حوالے سے سفارتی وفود کے مذاکرات تیزی سے مکمل ہوں گے تاکہ دونوں اسلامی ممالک ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھائیں اور ساتھ ہی علاقائی ممالک کی اقوام بھی اس دوستی اور تعمیری تعاون سے فائدہ اٹھائیں۔
اردرنی وزیر خارجہ نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ ان کا ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور خطے میں مزید استحکام، سلامتی اور امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کا خواہاں ہے۔ ایمن الصفدی نے اسی طرح صدر پزشکیان کے لئے اپنے ملک کے شاہ کا خصوصی پیغام ان تک پہنچایا جس میں سلام کے ساتھ ساتھ انہیں صدر بننے پر مبارکباد پیش کرنے کے علاوہ ان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا اردن نے شروع ہی سے غزہ پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت کی شدید مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اردنی وزیر خارجہ نے ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مغربی ایشیا میں کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے پہلا قدم غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی وضاحت دی کہ وہ اسرائیل (ناجائز صیہونی حکومت) کی جانب سے کسی پیغام کے حامل نہیں ہیں بلکہ وہ ایران و اردن کے درمیان پائی جانے والی نااتفاقیوں کو دور کرنے کے مقصد سے تہران آئے ہیں۔