کیا ایران کو دفاعی اور ایٹمی شعبے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے؟
حزب اللہ لبنان کے بے مثال رہنما اور مجاہد سید حسن نصر اللہ لبنان کے غیر فوجی علاقے ضاحیہ میں صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے جو در اصل امریکہ اور مغربی ملکوں کے تعاون سے صیہونی حکومت کے جرائم کا تسلسل تھا لیکن اس کے ساتھ یہ جرم اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عالمی قوانین بے کار ہو چکے ہیں۔
سحرنیوز/ایران: اس قتل کا حکم اس نیتن یاہو نے دیا جنہیں دنیا بھر کے آزاد وکیل جنگی مجرم قرار دے چکے ہيں، وہ بھی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد انہوں نے یہ حکم دیا ہے جو در اصل اس قانونی نظام کا مذاق اڑانا ہے جس کی علامت دوسری عالمی جنگ میں 60 لاکھ بے گناہوں کے قتل عام کے بعد ڈمبرٹن اوکس، یالٹا اور سان فرانسسکو کانفرنسوں میں 111 شقوں پر مشتمل منشور کو سمجھا جاتا ہے۔
لبنانی مزاحمت کی افسانوی شخصیت سید حسن نصر اللہ کا قتل، پیجروں کے ذریعے عام شہریوں کا قتل اور دو ہفتوں کے دوران ہزآروں لبنانی شہریوں کا قتل اور انہيں زخمی کرنا اقوام متحدہ کے منشور میں حق حیات کے منافی ہے۔
بین الاقوانی انسان دوستانہ قوانین کے لحاظ سے، ریاستی دہشت گردی اور غیر فوجی علاقوں اور شہریوں پر حملے ہیگ قانون اور 1949 کے جینیوا کے چاروں کنوینشنوں کی خلاف ورزی ہے۔ انسان دوستان اور انسانی حقوق کے قانونی کی بنیاد یہ ہے کہ عام شہریوں اور فوجیوں میں فرق رکھا جائے لیکن ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت نے جان بوجھ کر اور بار بار عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
روم 1998 کنوینشن کے مطابق فلسطین و لبنان میں صیہونی حکومت کے جنون آمیز اقدامات ، حزب اللہ اور حماس کے رہنماؤں کی ٹارگیٹ کلنگ اور نیتن یاہو اور صیہونی کمانڈروں کا موقف یہ سب کچھ پوری طرح سے جنگی جرائم اور نسلی تصفیہ کے زمرے میں آتا ہے اس طرح سے قانونی لحاظ سے نیتن یاہو اور صیہونی فوجی کمانڈوں کے ساتھ جنگی مجرموں جیسا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے اور ان پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے لیکن پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح سے عالمی عدالت انصاف اور اس کے اٹارنی جنرل کریم خان کی جانب سے نیتن یاہو ، گالانٹ اور دیگر صیہونی حکومت کی فوری گرفتاری کے مطالبہ کے بعد امریکہ اور اسرائيل کی جانب سے دھمکیاں دی گئيں اور اسی طرح عالمی عدالت کو ختم کرنے کی بھی بات کہی گئی اور آخر کار جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے قبل ان لوگوں کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی چیف پراسکیوٹر کی خواہش پوری نہ ہو سکی جس کی وجہ سے صیہونی حکومت کی گستاخیاں اور بڑھ گئيں۔
لبنان و یمن پر صیہونی حکومت کے جنون آمیز حملے اور ہر دل عزيز مزاحمتی رہنما سید حسن نصر اللہ کا قتل موجودہ عالمی قوانین کے نظام کی نا اہلی اور اس کے خاتمے کا ایک اور ثبوت ہے۔ چنانچہ موجودہ حالات میں صیہونی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کے لئے کوئی وسیلہ موجود نہيں ہے۔ اس لئے انسانیت کو عالمی قوانین میں اہم اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب موجودہ عالمی نظام میں بچوں کے قاتل صیہونی وزیر اعظم بڑی بے شرمی سے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھ کر ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دیتے ہيں، ٹارگیٹ کلنگ اور قتل عام کا حکم دیتے ہيں اور اسی کے ساتھ باکو سے اسے ایندھن فراہم کیا جاتا ہے اور ایران کے پڑوس میں واقع جمہوریہ آذربائيجان میں اسرائيل ہتھیاروں کا ذخیرہ کر رہا ہے ایران کے لئے دفاعی حکمت عملی خاص طور پر ایٹمی معاملے میں نظر ثانی کرنے اور صیہونی حکومت اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی خباثتوں کے سامنے اسٹریٹجک صبر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ کام قانونی لحاظ سے بھی صحیح ہوگا۔
(مقالہ نگار، ڈاکٹر احمد کاظمی)