ایران خطے میں قیام امن کا خواہاں؛ عراقچی
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کی مؤثر مزاحمتی پالیسی نے اسرائیل کی مصنوعی ہیبت کا بھرم توڑ ڈالا، اب وقت ہے کہ اقوام متحدہ اور اسلامی دنیا سفارتی اقدام کے ذریعے خطے کے امن کی ضمانت دیں۔
سحرنیوز/ایران: ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ تہران نے صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کا مثبت جواب دیتے ہوئے خطے میں ایک بار پھر سفارتی حل کی راہ ہموار کی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے روزنامہ النہار میں شائع شدہ ایک مضمون میں اس فیصلے کو نہ صرف ایک اصولی اقدام قرار دیا بلکہ اسے خطے میں ایران کے اثر و رسوخ اور دانشمندانہ پالیسیوں کا مظہر بھی قرار دیا۔ سید عباس عراقچی نے لکھا کہ دہائیوں پہلے جب مسئلہ فلسطین اسلامی دنیا کا ایک بحران بن کر ابھرا تھا، تب کم ہی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن ایران اس موضوع میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ لیکن آج صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کے بعد ایران نے اپنی اثر انگیزی ثابت کر دی اور واضح کر دیا کہ خطے کی طاقت کا توازن اب بدل چکا ہے۔
انہوں نے اپنے مضمون میں دو اہم نکات پر خصوصی روشنی ڈالی: اول یہ کہ ایران نے اسرائیلی حملے کے خلاف دفاعی اور مؤثر مزاحمتی کارروائی کرتے ہوئے اس کے مصنوعی رعب کو جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے قائم تھا، ختم کر دیا۔دوسرے یہ کہ ایران کا ردعمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 51ویں اجلاس کی قرارداد پر استوار تھا، جس میں تمام اسلامی ممالک نے اسرائیل کے اقدام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جارحیت اور جنگی جرم قرار دیا تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدامات کرے اور اسرائیل سے ضمانت لے تاکہ خطے میں پائیدار امن ممکن ہو۔ اس حوالے سے چین، روس، یورپ، برازیل اور جاپان جیسے ممالک ایک تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران کئی دہائیوں سے مشرق وسطی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ موجودہ حالات میں مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی ہم آہنگی، سرمایہ کاری، اور علاقائی تجارتی معاہدوں کے فروغ سے کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ایران کی تدبیر اور تحمل کا غماز ہے بلکہ اس امر کا مظہر بھی ہے کہ حتی میدان جنگ کے بیچ بھی ایک بار پھر سفارت کاری اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران ایک بار پھر بین الاقوامی برادری، بالخصوص ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملوں کی محض زبانی مذمت پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اس کی عملی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ ان حملوں میں نطنز، فردو اور اصفہان جیسے اہم جوہری مراکز کو نشانہ بنایا گیا جو مکمل طور پر آئی اے ای اے کے حفاظتی نظام کے تحت کام کر رہے تھے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی ادارے مجرم کی شناخت اور سزا کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ آئندہ ایسے حملے دوبارہ نہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امن کی طرف پہلا قدم، اس ناانصافی کے خلاف مضبوط اقدام اور متاثرہ فریق کی سکیورٹی کی ضمانت سے مشروط ہے۔ یہ ابتدائی اقدام ہی جنگ بندی کو ایک پائیدار صلح میں بدلنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے مغربی ایشیا کی صورت حال کو ایک تاریخی دو راہے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ خطے کو یا تو تشدد اور تباہی کی راہ پر جانا ہوگا یا دانشمندانہ، پائیدار امن کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ انہوں نے اسلامی دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ مختصر مدت سیاسی مفادات کے بجائے طویل مدت مفاہمت اور استحکام کی طرف توجہ دے۔ان کے مطابق، امن کی جانب دوسرا مؤثر قدم فلسطین اور لبنان جیسے کلیدی ممالک میں مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی اور عملی مدد ہے۔ غزہ اور لبنان حالیہ برسوں میں منظم قتل عام، قبضے اور تباہی کا شکار رہے ہیں۔ یہی علاقے ہیں جو اگر مرکز توجہ بن جائیں تو خطے میں حقیقی امن اور استحکام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔