توازن بدل چکے ہیں، ایک بیوقوفی اسرائیل کا وجود ختم کر سکتی ہے ... مقالہ
بحران شام اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اردن سے ملنے والی اس ملک کی سرحد کھل چکی ہے اور اردن سے بڑی تعداد میں لوگ شام پہنچ رہے ہیں اور اپنی ضرورت کا سامان خرید کر واپس جا رہے ہیں۔
عراق سے ملنے والی شامی سرحد بھی کھولنے کی تیاریاں تیز ہوگئی ہیں۔ ان حالات میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں اور منصوبوں کو بڑا چھٹکا لگا ہے۔
توانائی کا مرکز سمجھا جانے والا یہ علاقہ امریکا اور دیگر استعماری طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ان طاقتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ اس پورے علاقے میں وہی حکومتیں برسر اقتدار رہیں جو مغربی ممالک کے مفاد کا خیال رکھیں۔ اس کے لئے استعماری طاقتوں نے یہ پالیسی اختیار کی کہ ہر حکومت کی کمزوریوں پر نظر رکھی اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا تاہم اس وقت حالات نہ امریکا کے کنٹرول میں ہیں اور نہ اس کے اتحادیوں کی کچھ چل پا رہی ہے۔
شام اور عراق کی سیاسی اور اسٹرٹیجک تبدیلیوں کو اپنی مٹھی میں کرنے کے امریکا اور اس کے مغربی و علاقائی اتحادیوں نے طویل منصوبے تیار کئے تھے۔ ان ممالک کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی باتیں امریکی کانگریس میں کھل کر ہوئیں تاہم زمینی حالات اور سیاسی نیز اسٹرٹیجک تبدیلیوں کا رخ الگ رہا جس کے نتائج آج یہ ہیں کہ مغربی ایشیا کے علاقے کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا اس نکتے پر اجماع ہے کہ مغربی ایشیا کا علاقہ آہستہ آہستہ امریکا کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ امریکی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں امریکا کے اتحادیوں کی حالات دگرگوں ہو گئی ہے۔ اس وقت اسرائیل غزہ پٹی میں ہر جمعے کو ہونے والے مظاہروں سے پریشان ہے۔ پرامن مظاہرین پر اسرائیلی فوجی بے دریغ حملے کرتے ہیں جن میں فلسطینی مظاہرین شہید اور زخمی ہوتے ہیں تاہم مظاہروں کی تیزی اور ان کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
صیہونی حکام نے غزہ کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے اور یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہيں کہ اسرائیلی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی 6 گھنٹے طولانی نشست بھی ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطینیوں کے احتجاج اور مظاہروں کو ہر قیمت پر کچلنا ہے تاہم فلسطینی گروہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جنگ شروع کی تو اسے خطرناک نتائج کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
فلسطینی گروہوں کے بیانوں سے قطع نظر اگر اسرائیل کے اندر ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے خیالات دیکھا جائے تو حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی تنظیموں کی طاقت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اب اسرائیل کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ جنگ شروع کرے اور اس جنگ سے وہ نتیجہ حاصل کر لے جو اس کی خواہش ہے۔ یعنی اسرائیل جنگ کا آغاز تو کر سکتا ہے لیکن اسے روکنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہوگی۔
اسی لئے اسرائیلی ماہرین بھی حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے ضروری ہوگا کہ اس کے نتائج کے بارے میں اچھی طرح غور و فکر کر لیا جائے۔
پورے مغربی ایشیا کے حالات کا جو رخ ہے اس میں صاف نظر آ رہا ہے کہ امریکا یا اس کے اتحادیوں کے لئے اب اس علاقے میں من مانی کرنا ممکن نہيں ہوگا۔ اس درمیان سب سے زیادہ تشویش اسرائیل کو ہے جو ایک غیر قانونی حکومت ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اسرائیل وجود میں آ تو گیا لیکن 70 سال بعد بھی اسرائیل کے لئے سب سے بڑی تشویش یہی ہے کہ دنیا کے سارے ممالک اس کو قبول کر لیں۔
اسرائیل نے کچھ عرب حکومتوں سے معاہدے کر بھی لئے ہیں تاہم عوام کے درمیان آج بھی اسرائیل کو ان ممالک میں غاصب حکومت کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے جہاں کی حکومتیں اسرائیل کو قبول کر چکی ہیں۔ اسرائیل کا پورا وجود ہی سازشوں، خطرناک منصوبوں اور تشدد پر قائم ہے اور یہ اسرائیلی حکام بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان حالات میں اسرائیل کے ناجائز وجود کو باقی رکھ پانا ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔