جمال کا قتل اور یمنی عوام کا قتل عام، مغرب کے دوہرے معیار پر ایک نظر
سعودی عرب کے سینئر صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے استنبول شہر میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل پر عالمی سطح پر جو ہنگامہ کھڑا ہو گیا اس سے حکومت ریاض حکومت بڑی مصیبت میں پھنس گئی ہے اور اسے بڑی بے عزتی برداشت کرنی پڑی لیکن یمن میں سعودی عرب کے ہاتھوں بے گناہ عوام کے قتل عام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔
گزشتہ بدھ کو مغربی صوبے الحدیدہ میں سعودی عرب کی بمباری میں کم از کم 24 عام شہری جاں بحق ہوگئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے الحدیدہ کے الفقیہ نامی علاقے میں سبزیوں کی پیکینگ کے مرکز پر یہ حملہ کیا۔
سعودی عرب کے حملے میں دو درجن سے زائد عام شہری جاں بحق ہوگئے لیکن عالمی سطح پر پوری طرح خاموشی چھائی رہی ۔

سعودی عرب نے یمن پر جو جنگ مسلط کی ہے اس کی وجہ سے اس غریب ملک میں 14 لاکھ افراد غذائی قلت کی وجہ سے موت کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں ۔
جمال خاشقجی کے قتل کے بعد جو ماحول بنا اس سے سعودی عرب کی حکومت ویسے تو شدید دباؤ میں آ گئی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مواقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان جنگ یمن کے اصل منصوبہ کار ہیں اور سعودی عرب نے اس جنگ میں مسلسل جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی متعدد رپورٹوں میں کہا ہے کہ سعودی عرب، یمن میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کے حملوں میں یمن میں 14 ہزار سے زائد عام شہری جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ سعودی عرب ان حملوں میں جو اسلحے استعمال کر رہا وہ مغربی ممالک سے خریدے جا رہے ہیں ۔ اسٹاک ہوم تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ 98 فیصد ہتھیار، امریکا اور مغربی ممالک سے سعودی عرب خرید رہا ہے ۔ جرمنی نے کہا کہ اس نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کو ہتھیاروں کی سپلائی روک دی ہے تاہم فرانس کے صدر امانوئل میکرون کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہیں ۔ بعد میں فرانس اور جرمنی نے اعلان کیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ریاض پر پابندی عائد کرنے کے لئے یورپی یونین ہماہنگ پالیسی اختیار کرے ۔

واشنگٹن نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت بند نہیں کرے گا۔ یہیں پر مغربی ممالک کے دہرے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یمن میں جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں عام شہری جاں بحق ہو رہے ہیں ۔ پورا ملک تباہ ہو گیا ہے اور اس پورے عمل میں مغربی ممالک سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں ۔