تو پھر سعودی عرب پر انصار اللہ کا قبضہ ہوتا ... + مقالہ
ایران کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل علی فدوی کا کہنا ہے کہ ہم یمن میں موجود نہیں ہیں اور اگر ہم یمن میں ہوتے تو ریاض پر انصار اللہ کا قبضہ ہوتا ۔
گزشتہ چار برسوں سے زائد عرصے سے یمن میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وحشیانہ حملے اور جرائم ہیں ۔ ان دونوں حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کے پاس جو کچھ بھی ہے، ہتھیاروں سے لے کر کرایہ کے ایجنٹ تک سبھی یمن کے مظلوم عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔
یہ بات صحیح ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی یمن کے خلاف وسیع جنگ کا آغاز کرنے والے ہیں تاہم ان کو امریکا، صیہونی حکومت اور کچھ مغربی ممالک کی فوجی، اسٹراٹیجک، مالی اور انٹلیجنس شئیرنگ حمایت جاری ہے ۔
امریکا، صیہونی حکومت اور کچھ مغربی ممالک کی وسیع حمایت کے باوجود سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں اپنے اس کسی ایک ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے لئے اس نے اس غریب عرب ملک کے خلاف وسیع جنگ کا آغاز کیا تھا ۔
سعودی عرب کے اتحاد نے یمن کا وسیع محاصرہ بھی کر رکھا ہے تاہم ان سب کے باوجود چند جوان ایسی مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے سعودی اتحاد کی نیندیں اڑ گئی ہیں ۔
ہاں، ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب کو امریکا نیز کچھ مغربی ممالک سے ہتھیار اور اسلحے تو خوب مل رہے ہیں لیکن جنگ یمن کو جیتنے میں یہ ہتھیار اس کی مدد نہیں کر رہے ہیں ۔ یہی نہیں یمن کی فوج اور رضاکار فورسز کی جانب سے جوابی حملے تیز ہوگئے ہیں ۔
یمنی فوج نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب پر متعدد ڈرون اور میزائل حملے کئے ہیں جبکہ ابو ظہبی ائیرپورٹ پر ڈرون حملے کا ویڈیو بھی جاری کر دیا ہے ۔
یمن کی طاقتور تحریک انصار اللہ کے ایک رہنما محمد البخیتی کا کہنا ہے کہ ہم ریاض اور ابوظہبی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں کو بند کروانے کی توانائی رکھتے ہیں ۔ 27 جولائی 2018 کو ابو ظہبی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کے اندر ڈرون حملے کے ویڈیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے محمد البخیتی نے کہا کہ یہ ویڈیو ثابت کرتا ہے کہ امارات کے پاس سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے ۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب، یمن میں پراکسی جنگ نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ براہ راست اس جنگ میں شامل ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ایران نہ تو بالواسطہ اور نہ ہی بلا واسطہ جنگ یمن میں شامل ہے بلکہ یہ یمنی عوام ہے جو گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے ظالموں سے بر سر پیکار ہے ۔
جیسا کہ ایران کی بحریہ کے سینئر کمانڈر ایڈمیرل علی فدوی نے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے اور سعودی عرب اور امریکا کے چہرے سے جھوٹ کی نقاب اتار لی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک اور صیہونی حکومت ایران پر یمن میں پراکسی وار میں شامل ہونے کا الزام عائد کرتے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر ایران چاہتا تو جنگ کا نقشہ ہی بدل چکا ہوتا ۔
یہاں پر ایک بار پھر ایرانی بحریہ کے کمانڈر کا یہ قول دہرانا ضروری ہے کہ ہم یمن میں نہیں ہیں اور اگر ہوتے تو ریاض پر انصار اللہ کا کنٹرول ہوتا ۔