Jun ۱۶, ۲۰۲۰ ۲۱:۵۸ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ کے غیر انسانی اقدام پر ہیومن رائٹس واچ کی نکتہ چینی

انسانی حقوق کی نگراں تنظیم نے بچوں کے قتل عام سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ سے سعودی عرب کا نام نکالے جانے پر شدید احتجاج کیا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش کی سالانہ رپورٹ میں بچوں کے قتل عام اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی فہرست سے ایک جارح اتحاد قائم کرنے والے ملک کی حیثیت سے سعودی عرب کا نام نکالے جانے پر کڑی تنقید کی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا رویہ، انسانی حقوق سے متضاد ہے۔ انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ملکوں کے خلاف تادیبی اقدامات کے تعلق سے انٹونیو گوترش کے رویہ کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش نے اپنی رپورٹ میں امریکہ اور اسرائیل کے انسانی حقوق کے منافی اقدامات کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سعودی عرب کی خوشامد کرنے کے مقصد سے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی فہرست سے جارح سعودی اتحاد کا نام نکال دیا ہے۔

یمن کی اعلی انقلابی کمیٹی کے سربراہ محمد علی الحوثی نے بھی یمن میں جارح سعودی اتحاد کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ اقدام ایک اور جرم اور انسانی معیاروں کو نظرانداز کئے جانے کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ایک ایسے وقت میں یہ اقدام کیا ہے کہ جب سعودی اتحاد نے شمالی یمن کے صوبے صعدہ کے رہائشی علاقوں پر حملہ کر کے 13 عام شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام اپنی سالانہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ یمن پر سعودی اتحاد کے فضائی حملوں میں یمنی بچوں کی شہادت یا جسمانی طور پر انکے معذور ہونے میں کمی آنے کی وجہ سے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ سعودی اتحاد نے بچوں کی حفاظت کیلئے بھی اقدامات کئے ہیں تاہم انہوں نے ان اقدامات کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

اقوام متحدہ نے اکتوبر دو ہزار سترہ میں جارح سعودی اتحاد کی جانب سے چھے سو تراسی بچوں کو شہید اور یمن کے کئی اسکولوں پر حملہ کرنے کی وجہ سے سعودی اتحاد کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ سعودی عرب کا نام اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں چلے جانے کے بعد دوبارہ خارج کر دیا گیا۔

اس سے قبل دو ہزار سولہ میں بان کی مون کے زمانے میں اقوام متحدہ نے سعودی عرب کا نام ایک مختصر مدت کے لئے بچوں کے حقوق پامال کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔اس کے بعد اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یہ کہا تھا کہ بلیک لسٹ سے نام نکالنے کے لئے سعودی عرب اقوام متحدہ پر سخت دباؤ ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی اُس نے مالی امداد روک دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔آخر کار اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں سعودی عرب کا نام شامل ہو جانے کے ایک دن کے بعد بان کی مون نے سعودی عرب کے دباؤ میں آکر اُس کا نام بچوں کے حقوق پامال کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دیا۔اس اقدام کے بعد بان کی مون کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی کڑی نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے حکام پر الزام ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے فراہم کی جانے والی مالی امداد کی بنا پر وہ آل سعود حکام کی خوشامد کرتے رہتے ہیں۔

ٹیگس