شیطانی مثلث کے ساتھ کیسا رخ ہوگا بائیڈن انتظامیہ کا
امریکا میں جوبائیڈن کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اس حکومت کی خارجہ پالیسی کے بارے میں متعدد طرح کے جائزے سامنے آ رہے ہیں۔
ایک سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ ڈیموکریٹس، جنہوں نے وائٹ ہاوس کے علاوہ سینیٹ اور ایوان نمایندگان کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، کیا امریکا کے صیہونی، سعودی اور اماراتی حامیوں سے مقابلہ آرائی کے لئے تیار ہوں گے؟ اور اگر وہ ان کے ساتھ مل کر چلنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
جب ٹرمپ بر سر اقتدار آئے تھے تبھی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ ملک میں انتہا پسند عیسائیوں کے علاوہ ملک کے باہر انہیں نتن یاہو کی قیادت میں صیہونیوں اور سعودی عرب نیز امارات کے شہزادوں بن سلمان اور بن زائد کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔
اگر یہ حمایت نہ ہوتی تو یقینی طور پر ٹرمپ اور ٹرمپیزم ملک اور عالمی اداروں میں اس حد تک ہنگامہ آرائی نہیں کر سکتا تھا۔ اس مختصر مقدمے کے بعد پہلے سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیموکریٹس نے جمال خاشقجی قتل کیس کے دستاویزات کو خفیہ درجے سے باہر نکالنے کا اعلان کرکے اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو لگام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ البتہ محمد بن زائد کے بارے میں ڈیموکریٹس کا رخ اب تک کچھ واضح نہیں ہے۔
بے شک اگر نتن یاہو کی قیادت میں مقبوضہ فلسطین کے گروہوں نے امریکا میں ٹرمپ اور ٹرمپیزم کی اتنی حمایت نہ کی ہوتی تو انہیں اتنی بری صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اب اگر نتن یاہو اور ان کے زیر اثر پارٹیاں بائیڈن کی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتی ہیں تو ٹرمپ اور ان کے حامی ان کے مخالف ہو جائیں گی۔ اس طرح سے نتن یاہو ایک دوراہے پر کھڑے نظر آ رہے ہیں۔