عراق اور شام پر امریکیوں پر بڑے حملے کا کیا ہے پیغام، کیا امریکا کا علاقے میں ٹکنا مشکل ہو جائے گا؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عراقی رضا کار فورس اور امریکی فوج کے درمیان اب بڑی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ بدھ کے روز امریکی فوجی ٹھکانوں پر کم از کم دس حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں امریکی سفارتخانے، عین الاسد اور دوسری امریکی فوجی چھاونیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکیوں کے استعمال والی سب سے بڑی چھاونی عین الاسد پر تو 14 میزائل فائر کر دیئے گئے جبکہ کردستان کے شہر اربیل کے ایئرپورٹ کے اندر واقع امریکی چھاونی پر کئی ڈرون طیاروں سے حملہ کیا گیا۔
اس سے تھوڑے فاصلے پر امریکی قونصل خانہ واقع ہے۔ منگل کے روز بغداد میں امریکی سفارتخانے کے اوپر پرواز کرنے والے ڈرون طیارے کو مار گرایا گیا۔ دوسری جانب شام کے اندر دیر الزور کے علاقے میں بھی امریکی ٹھکانے پر کئی ڈرون طیاروں سے حملے ہوئے۔
یہ سارے حملے امریکی صدر جو بائیڈن کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ عراق اور شام کے اندر امریکی فوجیوں کی موجودگی غیر قانونی ہے جسے برداشت نہیں کیا جائے گا اسی لئے امریکا کو چاہئے کہ فوری ان فوجیوں کو عراقی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کے مطابق ان علاقوں سے باہر نکال لے۔
صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے اپنے سارے فوجیوں کو 11 ستمبر سے پہلے ہی نکال لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی بائیڈن کو امریکا کی شکست کا اعتراف کر لیا ہے، اب عراقی فورس بھی طالبان کی روش پر کام کرتے ہوئے امریکا کو عراق سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکی قیادت والے فوجی اتحاد کے ترجمان وائن مارتھو نے اعتراف کیا ہے کہ شام اور عراق میں ایک ساتھ یہ حملے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ان حملوں میں صرف تین فوجیوں کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ ہمیں اس سے ایران کے اس حملے کی یاد آتی ہے جو اس نے جنرل قاسم سلیمانی کا انتقام لینے کے لئے عین الاسد چھاونی پر کیا تھا۔
امریکی قیادت نے پہلے دعوی کیا تھا کہ حملے میں کئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تاہم بعد میں پتہ چلا کہ حملے کی وجہ سے 100سے زائد فوجی اور کمانڈر زخمی ہوئے جبکہ چھاونی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ سی این این نے چھاونی کے اندر جا کر وہاں ہوئی تباہی کی تصاویر دکھائی تھیں۔
ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ عراق کے اندر امریکا کی فوجی چھاونیاں ہونے کا کیا مطلب ہے۔ عراقی قوم ایسے برداشت کر سکتی ہے کہ وہی امریکا عراق کے اندر فوجی چھاونی بنائے جس نے عراق پر حملہ کیا اور پر کئی سال سے قبضہ کئے رکھا۔ اسی امریکا کی وجہ سے لاکھوں عراقیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔