Oct ۲۳, ۲۰۲۱ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • داعش نے کابل میں بجلی کی سپلائی لائنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی

دہشت گرد گروہ داعش نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو بجلی سپلائی کرنے والی لائنوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

افغانستان میں جاری بدامنی اور دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے اور شمال مغربی کابل واقع میں ایک بجلی گھر میں ہونے والے دھماکے کے باعث دارالحکومت سمیت کئی شہروں اور صوبوں کی بجلی مکمل طور پر منقطع ہوگئی ہے۔

افغانستان کے محکمۂ بجلی نے بتایا ہے کہ بجلی گھر میں دھماکے کے باعث سپلائی لائن پورے طور منقطع ہے اور ملک کے بہت سے شہر تاریکی میں ڈوب گئے ہیں۔ دہشت گرد گروہ داعش نے ایک بیان جاری کرکے، بجلی سپلائی کرنے والی لائنوں کو دھماکے سے اڑانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ داعش نے کہا ہے کہ اس کے عناصر نے کابل کو بجلی فراہم کرنے والی ہائی پاور لائن کے متعدد ٹاوروں کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں جب افغانستان میں بجلی کی سپلائی میں خلل پیدا ہوا ہے۔ ماضی میں طالبان بھی سابقہ حکومتوں کی مخالفت میں، بجلی گھروں اور سپلائی لائنوں کو دھماکوں سے تباہ کرتے رہے ہیں۔ بنابرایں ایسے واقعات نہ صرف طالبان بلکہ افغانستان کے عوام کے لیے بھی نئے نہیں ہیں۔ رواں سال فروری میں طالبان اور اشرف غنی کی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہائی ٹینشن لائنوں کے چار ٹاور تباہ اور کابل سے صوبہ غزنی کے لیے بجلی کی سپلائی منقطع ہوگئی تھی۔

البتہ ان دنوں افغانستان میں طالبان کا کردار اور ان کی پوزیشن ماضی کے مقابلے میں یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ پندرہ اگست سے اس گروہ نے افغانستان کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ خود کو افغان عوام، نیز علاقائی اور عالمی حلقوں میں ایک ذمہ دار گروہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دھماکے نہ صرف افغان عوام بلکہ عالمی حلقوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہیں۔

افغانستان کے عوام چالیس سال سے جاری بدامنی سے تنگ آچکے ہیں اور وہ اپنے ملک میں پائیدار امن و سلامتی چاہتے ہیں، لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان کو درپیش سیکورٹی خطرات ختم ہونے والے نہیں ہیں اور طالبان بھی ملک میں سلامتی کے قیام کی چنداں توانائی نہیں رکھتے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں جاری تشدد اور بدامنی کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف گروہ اس ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر کمر بستہ ہیں۔

البتہ اگر طالبان گروہ جس نے افغانستان کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے، ملک میں وسیع البنیاد اور ہمہ گیر حکومت کے قیام سے متعلق، سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کے مشورے پر عمل کرے تو یقینا مخالف گروہوں کو افغانستان کے عوام میں کوئی پذیرانی نہیں ملے گی اور جب عوام کے تمام طبقات کو اپنے شہری، سیاسی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی امیدیں دکھائی دینے لگیں گی تو اس کے نتیجے میں قومی اتحاد تقویت پائے گا اور ملک کی سلامتی کے دشمنوں کے خلاف ملی جدوجہد کا راستہ پوری طرح سے ہموار ہوجائے گی۔

ٹیگس