عراق ایک نئی سازش کی زد پر، امریکیوں کے علاوہ ملکی پارٹیوں کے دفاتر پر بھی حملے، سیاستدانوں نے مذمت کی
بغداد کے گرین زون اور اسی طرح بعض سیاسی پارٹیوں کے دفاتر پر حملوں کی عراق کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مذمت کرتے ہوئے اس طرح کے اقدامات کو عراق میں بدامنی اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش قر اردیا ہے۔
بغداد میں گرین زون میں جہاں غیر ملکی سفارتخانے واقع ہیں اور اسی طرح عراق کی سیاسی جماعتوں تقدم پارٹی اور عزم اتحاد کے دفاتر پر نامعلوم افراد کے حملوں پر عراق کی مختلف سیاسی رہنماؤں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عمار حکیم کی زیرقیادت الحکمہ پارٹی کے سربراہ عمار حکیم نے ان حملوں کو عراق کے ثبات و استحکام کے خلاف مشکوک سازش سے تعبیر کرتے ہوئے سخت خبردار کیا ہے۔
الفتح الائنس کے سربراہ ہادی العامری اور حکومت قانون اتحاد کے سربراہ نوری المالکی نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔
گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے کو بھی راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ عراقی گروہوں منجملہ حشدالشعبی کے قریبی گروہوں نے بھی اس طرح کے حملوں کی مذمت کی ہے۔
حکومت قانون نامی اتحاد کے سربراہ نوری المالکی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور سفارتی مراکز پر حملے ان گروہوں کا مجرمانہ عمل ہے جو عراق میں امن و استحکام نہیں چاہتے۔ نوری المالکی نے عراق کی سیاسی دھڑوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد رہیں اور ان برے منصوبوں کا راستہ بند کردیں اور اس طرح کے گروہوں پر نظر رکھیں اور انھیں قرارواقعی سزا دلانے کے لئے عدلیہ کے حوالے کریں۔
عراق کے الفتح الائنس کے سربراہ ہادی العامری نے بھی ایک بیان جاری کر کے بغداد کے گرین زون اور سیاسی پارٹیوں کے دفاتر پر ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے۔
عصائب اہل الحق تحریک کے سربراہ قیس الخزعلی نے ان حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان حملوں میں استقامتی گروہوں کی کسی بھی طرح کے ملوث ہونے کو سختی سے مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ ان حملوں کا مقصد عراق کی موجودہ صورت حال کو درہم برہم کرنا ہے۔
اکتیس دسبمر دوہزار اکیس سے عراق میں دہشت گرد امریکی فوجیوں کی موجودگی قانونی طور پر ختم ہو گئی ہے اور عراق کے اندر ان کی غاصبانہ موجودگی ایک متنازعہ موضوع بن چکی ہے۔ عراقی عوام اور تمام گروہ اپنے ملک میں امریکی فوجیوں کی غاصبانہ موجودگی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن امریکی حکام کا دعوی ہے کہ عراق میں ان کی فوجی موجودگی صرف مشاورتی حیثیت رکھتی ہے اور اس طرح وہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کو جائز ٹھہرانے اور عراقی عوام کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے غاصبانہ قبضے کو جاری رکھنے پر بضد ہیں۔
اس حساس موقع پر کہ جب عراق، پارلیمانی انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب اور حکومت کی تشکیل میں لگا ہوا ہے ایسا نظر آتا ہے کہ کچھ غیر ملکی خفیہ ہاتھ اس ملک کا امن و ثبات درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تاکہ وزیر اعظم کے انتخاب اور حکومت کی تشکیل کو معلق کر دیں اور اس ملک میں غاصبوں کی موجودگی کا جواز پیش کر کے دہشتگرد گروہوں کی واپسی کی زمین ہموار کریں۔
بعض عراقی حلقے ان غیر ملکی خفیہ ہاتھوں میں امریکا صیہونی حکومت اور سعودی عرب کا نام لے رہے ہیں۔