یمن نے یواے ای کے ساتھ اسرائیل کو بھی دیا اہم پیغام، ایک حملہ اور کئی پیغام، بڑے حساس موقع پر دیا گیا پیغام
ان دنوں اسرائیلی حکام متحدہ عرب امارات کے بہت دورے کر رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ مہینے صیہونی وزیر اعظم نفتالی بنیت نے متحدہ امارات کا دورہ کیا تھا جبکہ اتوار کو اسرائیلی صدر اسحاق ہرزبرگ بھی دو روزہ دورے پر ابوظہبی جا پہنچے۔
ہزبرگ نے تو اس سفر کو تاریخی قرار دیا۔ سفر تب ہو رہا ہے جب امارات پر حالیہ دنوں میں کم سے کم تین بار یمن کی تحریک انصار اللہ اور یمنی فوج نے ڈرون اور میزائل حملے کئے ہیں۔
یہ حملے اپنا اہداف پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دبئی اور ابو ظہبی میں بین الاقوام ائیرپورٹ پر گھنٹوں طیاروں کی رفت و آمد رکی رہی جبکہ ادنوک نام کی دیو ہیکل پیٹرولیم کمپنی کی ریفارئنری میں تیل کے ذخائر میں آگ لگ گئی، جس میں کچھ موتیں بھی ہوئیں۔
اسرائیلیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو اگر کہیں موقع مل جائے تو دیمک کی طرح چمٹ جاتے ہیں اور ان سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ستمبر 2020 میں امریکا کے دباؤ میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے ابراہم امن معاہدہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک ایک سال میں دو لاکھ سے زائد اسرائیلی امارات کا دورہ کر چکے ہيں جنہوں نے امارات میں چوری، منشیات کی اسمنگلنگ اور منی لانڈرنگ سمیت متعدد طرح کی مجرمانہ سرگرمیاں انجام دی ہیں جن کی رپورٹیں اسرائیلی میڈیا میں بھری پڑی ہیں۔
صیہونی صدر نے امارات پر ہونے والے والے ہر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ اس حوالے سے امارات کے ہر مطالبے پورے کرنے کے لئے اسرائیل پوری طرح تیار ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اسرائیل، امارات کی ضرورت کیسے پوری کرے گا۔ جس وقت یمن کی تحریک انصار اللہ نے امارات میں الظفرہ چھاونی پر بیلیسٹک میزائل سے حملہ کیا تو اس وقت وہاں 3500 امریکی اور برطانوی فوجی موجود تھے اور وہاں پیٹریاٹ اور تھاڈ میزائیل ڈیفنس سسٹم تعینات تھے۔ ان فوجیوں نے فرار ہوکر زیر زمین بنکروں میں پناہ لی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کو دیکھئے تو 2000 میں وہ جنوبی لبنان سے یکطرفہ طور پر انخلا پر مجبور ہوگئی کیونکہ حزب اللہ کے حملوں سے اسے شدید نقصان پہنچا رہا تھا۔ پھر 2006 کی جنگ میں بھی اسے حزب اللہ سے شکست ملی اور 2021 کے مئی کے مہینے میں غزہ میں واقع فلسطینی تحریکوں نے جب قدس کی تلوار نامی فوجی آپریشن کیا تو نتن یاہو کو امریکی صدر جو بائیڈن سے مدد کی درخواست کرنی پڑی۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل جو ابو ظہبی سے 1500 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے، کیا اس کی مدد کر پائے گا۔ اسرائیلی حکام متحدہ عرب اور دوسرے عرب ممالک کو صرف دھوکہ دے رہے ہيں اور ان کے مال و ثروت پر نظر لگائے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے معاریو اخبار میں شائع ہونے والے آلون بن ڈیوڈ کے مقالے میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی سیکورٹی ایجنسیاں اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہیں کہ امارات کو آئرن ڈرم جیسے سسٹم دیئے جائیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان ایجنسیوں کو امارات پر بھروسہ ہیں ہے۔
متحدہ عرب امارات نے جنگ یمن میں کود کر بہت بڑی غلطی کر دیا ہے اور اسرائيل کے ساتھ امن معاہدہ کرنا، اس کی ایک اور بڑی غلطی تھی۔ جنگ یمن میں کودنے سے اگر اسے جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے تو اسرائیل سمجھوتہ اس کے امن و سیکورٹی کو تباہ کر دے گا، خاص طور پر اس وقت جب امریکا پورے مغربی ایشیا سے نکل رہا ہے اور اسرائیل ہر جنگ میں شکست کا سامنا کر رہا ہے۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*