افغان عوام کے پیسے پر امریکی ڈاکہ زنی سے سابق افغان صدر ناراض
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر بائیڈن سے کہا ہے کہ وہ افغان عوام کے اثاثے ضبط کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔
افغان نیوز ایجنسی آوا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو چاہئے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور افغان عوام کی پوری رقم واپس کردیں۔
حامد کرزئی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ افغان عوام خود دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں، کہا کہ دہشتگرد گروہ القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو افغان عوام نہیں لائے تھے بلکہ بیرونی طاقتیں اس کو افغانستان لائی تھیں۔
افغانستان کے سابق صدر نے طالبان کی عبوری حکومت سے بھی اپیل کی کہ وہ لویہ جرگہ بلائیں یا ایک قومی اجلاس منعقد کرنے کی زمین ہموار کریں تاکہ اس میں عوام اور ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔
افغانستان اسٹیل یونین کے نائب صدر عصمت اللہ وردک نے بھی امریکہ کی جانب سے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بہانے افغان عوام کا سرمایہ ہڑپ کرنے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کو منجمد کئے گئے اثاثے کا کچھ حصہ پرائیویٹ سیکٹر سے متعلق ہے۔
عصمت اللہ وردک نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان کے ضبط شدہ تقریبا دس ارب ڈالر میں سے تین ارب سے زیادہ اس ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کا ہے اور کسی بھی شخص یا ادارے کو اسے ہرجانے کے طور پر ضبط کرنے کا حق نہیں ہے۔ عصمت اللہ وردک نے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کے اس ظالمانہ فیصلے کے سلسلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہ دیں کہ افغانستان کی مظلوم قوم کی دولت ہرجانے کے طور پر ضبط کی جائے۔
امریکہ کی اس ڈاکہ زنی پر پاکستان نے بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ افغانستان کے اثاثوں میں تصرف کرے۔ ارنا نیوز کےمطابق پاکستان کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان جاری کر کے امریکی صدر جوبایڈن کے اُس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی جس میں انہوں نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو ہڑپ کر اُنہیں گیارہ ستمبر واقعے کے مہلوکین کے اہل خانہ کو دے دینے کی بات کی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے امریکہ کے اس اقدام کو غیر قانونی اور افغان عوام کے حق میں ظلم قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو ایک فرمان پر دستخط کر کے افغانستان کے منجمد اثاثے کی نصف سے زیادہ رقم کو گیارہ ستمبر کے خودساختہ واقعے کے متاثرین کو بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے پندرہ اگست کو افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے بے بنیاد بہانوں سے افغانستان کا تقریبا دس ارب ڈالر کا سرمایہ منجمد کردیا تھا جس میں سے تقریبا سات ارب ڈالر ایک عرصے کے بعد ریلیز کرنے کا حکم دیا، تاہم امریکی صدر بائیڈن نے فورا یہ بھی کہا کہ ریلیز ہونے والی رقم کا نصب حصہ یعنی ساڑھے تین ارب ڈالر گیارہ ستمبر کے واقعے کے متاثرین کے پسماندگان کو بطور ہرجانہ دیئے جائیں گے۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان کے اثاثے منجمد کئے جانے پر افغان شخصیات نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے یہاں تک کہ افغان عوام اور عبوری طالبان حکومت نے اسے ڈکیتی قرار دیتے ہوئے مذکورہ رقم افغان عوام کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انسانی و اقتصادی بحران کی اصلی وجہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران اس ملک پر امریکی قبضہ رہا ہے اور اس وقت امریکی صدر بائیڈن نے افغان عوام کا اثاثہ ہڑپ کر اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ افغانستان پر بیس سال تک قابض رہنے کے بعد آخرکار امریکی دہشتگرد اگست دو ہزار اکیس میں یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔