ترکی کی من مانیوں پر عراقی وزارت خارجہ کا احتجاج
عراق کی وزارت خارجہ نے ملک کے شمالی علاقوں میں ترک فوج کی کاروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بغداد اور انقرہ کے درمیان ایسے حملوں کے بارے میں کوئی پیشگی اتفاق نہیں ہوا۔
بغداد سے ہمارے نمائندے کے مطابق عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے کہا ہے کہ ترکی شروع ہی سے ایسی غلطیاں کرتا آ رہا ہے جن کا کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ موجود ہے۔
عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آج ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ایسی تجاویز پر غور کیا گیا ہے جو ہمیں ترکی کے خلاف سفارتی اقدامات کی اجازت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں سیکورٹی، عسکری اور اقتصادی و سیاسی اقدامات پر غور کیا گیا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شمالی عراق میں پی کے کے کے ٹھکانوں پر ترک فوج کے غیر قانونی حملوں اور اس علاقے میں اس کی موجودگی بدستور جاری ہے حالانکہ بغداد کی حکومت بارہا اس کی مذمت اور ایسے حملوں کو اپنی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیتی رہی ہے۔ ترک فوج نے دوسال قبل پی کے کے کے خلاف جنگ کے بہانے، جنہیں ترکی دہشت گرد قرار دیتا ہے، شمالی عراق پر حملہ کیا تھا۔
ترکی نے حال ہی میں شمالی عراق کے نواحی علاقے میں پی کے کے کے خلاف نئے فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ شمالی عراق کے صوبے نینوا کے صدر مقام موصل کے مشرقی علاقے بعشیقہ میں واقع ترک فوج کے زلیکان نامی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا ہے۔ بعشیقہ شمالی عراق کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں پچھلے کئی برس سے ترک فوج غیر قانونی طور پر موجود ہے۔ عراقی ذرائع کا کہنا ہے کہ کم سے کم چھے راکٹ ترک فوج کی زلیکان چھاونی پر گرے ہیں۔ تاحال راکٹ حملوں میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ترک فوج کی مذکورہ چھاؤنی کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
پچھلے چند برس کے دوران ترکی کئی بار عراق پر حملے کرچکا ہے جس پر حکومت عراق اور دنیا کے دیگر ملکوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔