اسرائیل کو ہر طرف نظر آ رہا ہے حزب اللہ، اسرائیل میں کھلبلی
اسرائیل کے چیف آف ارمی اسٹاف کے ایک بیان سے پورے اسرائیل میں ہنگامہ مچ گیا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف اویو کوخافی نے کہا کہ اسرائیل اپنی طاقت لگائے ہوئے ہے کہ شام اور عراق میں بھی لبنان کے حزب اللہ کی طرح مضبوط تنظیم نہ تیار ہو جائیں۔
اسرائیل نے اس کے لئے ایک آپریشن شروع کیا ہے جس کا نام رکھا گیا ہے دو جنگوں کے درمیان جنگ ۔
اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ شام اور عراق میں حالیہ برسوں میں ایران کی فوجی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں مقامی تنظیم بالکل حزب اللہ کے انداز میں اپنے آپ کو ڈھال رہے ہيں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو ایک ساتھ کئی محاذ پر لڑنا پڑے گا۔ اتنا ہی نہیں ان تنظیموں کے بہت اچھے تعلقات حماس اور جہاد اسلامی جیسی فلسطینی تنظیموں سے ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا بالکل مشکل نہيں کہ اسرائیل کے چاروں طرح ان تنظیموں کا جال تیار ہوتا جا رہا ہے۔
اسرائیلی میڈیا میں یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ حزب اللہ کی طاقت 1999 اور 2005 کے درمیان جس سطح کی تھی اب اس سے کئی گنا بڑھ چکی ہے، اگر لبنان کا جائزہ لیا جائے تو حزب اللہ وہاں سیاسی اور اقتصادی طور پر بہت مضبوط طاقت بن گئی ہے۔
کوخافی نے یہ بھی دعوی کیا کہ حزب اللہ نے شام اور عراق کی نہیں یمن میں بھی ہتھیاروں کو توسیع دینے کا عمل کامیابی کے ساتھ آگے بڑھائی ہے۔ جیروزلم پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ بارہا بارہا خبروں میں آتاہے کہ اسرائیل نے شام کے اندر حملہ کر دیا یا عراق کو نشانہ بنایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی ایجنسیوں کو صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کے چاروں طرف بڑے مضبوط جال بنے جا رہے ہيں۔
عراق اور شام دونوں ممالک میں ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو اسرائیل سے شدید دشمنی رکھتی ہیں اور ایران سے بہت قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں۔ اسرائیل ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ کوشش کر رہا ہے کہ توازن میں کوئی تبدیلی ہو جائے مگر اب تک یہ واضح نہيں ہو سکا ہے کہ اسرائیل کے آپریشن کی زمینی صورتحال پر کیا اثر پڑا ہے۔
حال ہی میں قطر میں ہو رہے فٹبال ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عربوں اور مسلمانوں میں اسرائیل کو لے کر بڑی نفرت پائی جاتی ہے۔ ورلڈ کپ میچ دیکھنے پہنچے عرب و مسلم ممالک کے تماش بینوں نے اسرائیلی میڈیا اور اسرائیلی شائقین سے اتنی بے رخی کی کہ اسرائیل نے باقاعدہ قطر کی وزارت خارجہ سے اس کی شکایت کی۔
ان حالات کے مد نظر اسرائیل کے اندر ایک بڑا طبقہ یہ مانتا ہے کہ نتن یاہو نے بڑی محنت کرکے ٹرمپ کو بہلا پھسلا کر عرب ممالک سے ابراہم سمجھوتہ کیا لیکن آج حالات یہ ہیں کہ سمجھوتہ صرف حکومتوں تک ہی محدود ہے۔ ان ممالک کے عوام اسرائیل کو برادشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
*مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*