عراق میں قبضہ گری کی امریکی پالیسی جاری، مزید 3 فوجی اڈے بنانے کا اعلان
عراق کے صوبےالانبار میں 3 نئے فوجی اڈوں کی تعمیر کے ساتھ امریکہ عراق میں قبضہ گری کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: المعلومہ کی رپورٹ کے مطابق شیعہ رابطہ کمیٹی کے ایک رہنما جبارعودہ نے کہا ہے کہ امریکی حکام عراق اور شام کی سرحدوں پر تین مزید فوجی اڈے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جبار عودہ، شیعہ رابطہ کمیٹی کے رہنما نے جو "الاطار التنسیقی" کے نام سے معروف ہے بتایا کہ امریکی عراق اور شام کی سرحدوں پر تین فوجی اڈے بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ .
گزشتہ روز انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ سرحدعلاقوں کے قریب واقع مسلح دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا ہے اور وہ مسلح گروہوں کی مدد سے اس خطے کو علاقائی تنازعات کے میدان میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
رابطہ کمیٹی کے سربراہ نے تاکید کی کہ مغربی الانبار میں عین الاسد اڈے میں موجود امریکی افواج چند ہفتے پہلے سے تین نئے فوجی اڈے بنا رہے ہیں اور یہ دہشت گردوں کی دراندازی کے راستوں کے قریب والے علاقوں میں واقع ہیں۔
جبار عودہ نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکی افواج کی کوئی بھی نئی تعیناتی مشکوک ہے، واضح کیا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ عراق مستحکم ہو، اور دوبارہ تعیناتی کی کوشش ایک نیا منظر نامہ ہے، جس کی زیادہ تر تفصیلات پوشیدہ ہیں۔
انہوں نےاس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ اور اس کی افواج پر کوئی بھی بھروسہ نہیں کرتا، کہا کہ یہ طاقتیں اپنے مفادات کے لیے خطے کی سلامتی کو درہم برہم کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔ اس لیے شام کی سرحدوں پر اقدامات بڑھائے جائیں۔
اسی سلسلے میں صوبہ الانبار میں احرار الفرات پارٹی کے سیکرٹری جنرل "عبدالله الجغیفی" نے مئی کے مہینے میں کہا تھا کہ اس صوبے میں ایک بڑی تباہی ہو رہی ہے اور امریکی قبائل سے زمینیں خرید رہے ہیں اور عین الاسد بیس کو توسیع دے رہے ہیں۔
عین الاسد فوجی اڈہ عراق میں بلد ایئر بیس کے بعد دوسرا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، جو صوبہ الانبار کے البغدادی علاقے میں واقع ہے، جس پر 2003 میں امریکہ نے قبضہ کیا تھا اور اب بھی اس کے قبضے میں ہے۔
عراق میں امریکی دہشت گرد فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے باوجود، جسے 2018 میں منظور کیا گیا تھا، اس ملک میں غاصب امریکیوں کی موجودگی روز بروز بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے، اور وہ عراق سے نکل جانے پرآمادہ نہیں ہیں ۔