برطانوی کمانڈوز کے ہاتھوں 80 افغان شہریوں کا قتل عام
افغانستان میں برطانوی فوجیوں نے 80 افغان شہریوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا ۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: مہر خبر رساں ایجنسی نے گارڈین کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ افغان خاندانوں کا دفاع کرنے والے وکلاء کے ایک گروپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2010 اور 2013 کے درمیان درجنوں افغان شہریوں کے قتل کی تحقیقات کررہے ہیں ۔ مدعا علیہ برٹش ایئربورن اسپیشل فورسز کے تین الگ الگ یونٹوں کے رکن ہیں، جو افغانستان پر قبضے کے دوران گشتی مشن انجام دے رہے تھےاور برطانوی فوجیوں نے تسلیم کیا کہ اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے افغان باشندوں کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔
متاثرین کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک قانونی فرم لی ڈے کا کہنا ہے کہ 2010 اور 2013 کے درمیان "کم از کم 30 مشتبہ واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد قتل ہوئے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں۔
گزشتہ سال دسمبر میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ لارڈ جسٹس ہیڈن کیو کی سربراہی میں ایک قانونی ٹیم انکوائری کرے گی ۔
اس سے قبل افغانستان میں برطانوی افواج کی جانب سے 600 خلاف ورزیاں رپورٹس ہوئیں جن میں خصوصی فضائیہ کے ذریعے عام شہریوں کی ہلاکت بھی شامل تھی، اس ملک کی ملٹری پولیس نے 2014 میں تحقیقات کا آغاز کیا تھا، تاہم یہ تحقیقات 2017 میں منسوخ کر دی گئی تھیں اور 2019 میں تفتیش بند کر دی گئی، اور وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ رپورٹ شدہ جرائم کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
افغان خاندان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران سینئر افسران اور فوجی حکام کی جانب سے وسیع پیمانے پر تحقیقات کی بڑے پیمانے پر پردہ پوشی کی گئی ہے۔
صوبہ ہلمند میں طویل اور خونریز برطانوی فوجی تعیناتی کے دوران، جو 2014 میں ختم ہوئی، ایئر بورن اسپیشل فورسز نے طالبان جنگجوؤں کی تلاش میں، اکثر رات کے وقت افغان خاندانوں کے اجتماعات پر حملے کئے۔