Jul ۲۶, ۲۰۲۳ ۱۰:۳۳ Asia/Tehran
  • ہر دور میں یزید عصر کو پہچاننے کی ضرورت

کربلا کے میدان سے جو نعرۂ حق بلند ہوا، اس کی صدائے بازگشت نے مظلومان جہاں کی سماعتوں میں آزادی کے نغموں کا رس گھولا ہے۔

سحر نیوز/مناسبت: چودہ صدی قبل کربلا کے لق و دق صحرا میں جب نواسۂ رسول، امامِ حریت، محسن انسانیت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے عظیم ترین جانثاروں کے خون سے ہولی کھیلی گٸی اور پھر اس کے بعد اس دور اور اس کے بعد آنے والے زمانے کی سامراجی طاقتوں نے جس طرح تاریخ کے اس بھیانک اور قبیح ترین جرم کو چھپانے کے لیے اس خون ناحق پر خاک ڈالنے کی کوشش کی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

لیکن آج اگر عالم انسانیت پر تحریک کربلا کے مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ کیا جاٸے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دنیا کے منظرنامے میں کربلا کی تحریک وہ انقلابی اقدام ہے، جس نے نہ صرف آنے والے حالات و واقعات کے دھارے کا رخ ہی تبدیل نہیں کیا ہے بلکہ اربوں انسانوں کے قلوب و اذہان کو بھی متأثر کیا ہے۔

کربلا کے میدان سے جو نعرۂ حق بلند ہوا، اس کی صدائے بازگشت نے مظلومان جہاں کی سماعتوں کو آزادی کے نغموں سے بہرہ مند کیا ہے اور ان کی بصیرتوں کو ایسی جلاء بخشی ہے، جس کی بدولت ان کی منتظر آنکھوں نے اُس گنج گرانبہا کو تلاش کر لیا ہے، جو ان کی نجات کا ضامن اور زمانے کے ہر ستمگر کے لئے اس پیغام کا حامل ہے کہ راہ حسینی کا کوٸی بھی مسافر کسی بھی آمر مطلق کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گا اور کسی بھی صورت میں اپنے قول یا فعل کے ذریعے کسی کے آمرانہ مقاصد کی تکمیل میں اس کا حصہ دار نہیں بنے گا۔

سربلندی کی راہ پر اُسی وقت گامزن رہا جا رہا ہے جب اس راہ کے راہزنوں کو صحیح سے پہچان لیا جائے، اگر ہر دور میں راہ راست کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اسکے حاشیے پر گھات لگائے بیٹھے راہزنوں اور یزید صفت عیاروں کی صحیح شناخت نہ کی جائے تو پھر اپنی منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا ہے۔

ہر راہ حق پر باطل کی جانب نکلنے والے کجراہے ہیں، ہر خدائی پیغام کے ساتھ شیطانی وسوسہ ہے، ہر حسینی تحریک کے ساتھ یزیدیت کا طوفان ہے، اگر رحمٰن کی گفتگو ہوتی ہے تو اُس کے ساتھ شیطان بھی موضوع گفتگو بنتا ہے۔ اس لئے ہر دور میں منزل کمال کی جانب گامزن ہر انسان کے لئے ’’راہ‘‘ اور ’’چاہ‘‘ دونوں کی شناخت ضروری ہے، ’’رحمٰن‘‘ اور ’’شیطان‘‘ دونوں کی پہچان لازمی ہے، ’’حسین‘‘ اور یزید دونوں کو پہچاننا ضروری ہے، محاذ حق کدھر سجا ہے اور محاذ باطل کس طرف ہے، یہ پتہ لگانا نہایت ضروری ہے ورنہ منزل کی ایک سراب سے زیادہ حیثیت نہیں ہوگی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آج جن افراد نے یہ شناخت حاصل کی، ’’راہ‘‘ اور ’’چاہ‘‘ کو سمجھ گئے، ’’رحمٰن‘‘ اور ’’شیطان‘‘ کو پہنچان گئے، ’’حسین‘‘ اور ’’یزید‘‘ کے فرق کو درک کر گئے وہ تمام تر سربلندی کی ساتھ شیطانی قوتوں کے ساتھ نبردآزما ہیں اور دین، اسلام، قرآن اور امت کے لئے فخریہ ابواب رقم کر رہے ہیں۔

عصر حاضر میں محاذ اسلام کے مقابلے میں ایک یزیدی محاذ نبرد آزما ہے جس کی باگڈور اس وقت شیطان بزرگ امریکہ اور اسکے ناجائز مولود اسرائیل کے ہاتھ میں ہے، اس محاذ کے خلاف آواز اٹھانے والے، چاہے جس سرزمین، خطے اور ملک میں ہوں وہ سخت ضرور مگر ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں، دنیا میں ایک آزاد اور حریت پسند قوم کے بطور پہچانے جاتے ہیں، وہ پھر سختیوں سے نہیں گھبراتے کیوں کے اُن کے سامنے مکتب حسینی کے رقم کردہ خطوط موجود ہیں، وہ اپنی حیات سے دستبردار ہو جاتے ہیں، مگر یزیدی محاذ کی منھ زوری، چودھراہٹ اور ذلت آمیز نوکری کو تسلیم نہیں کرتے۔

اس کی واضح مثال عصر حاضر میں ایران میں سامنے آئی جہاں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی سامراج نے اپنے تمام اعوان و انصار کے ساتھ ایک جٹ ہو کر اُسے مغلوب کرنے کی کوشش کی، اسکی اقتصادی ناکہ بندی کی، اُس پر تاریخ کی بدترین پابندیاں عائد کیں، اُس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر اس کے باوجود سیاسی ماہرین کے ظاہری اندازوں کے برخلاف ایران آج ایک با عزت، طاقتور اور دنیا کے سیاسی منظر نامے میں ایک مؤثر ملک کے بطور ابھر کر سامنے آیا ہے اور یہی ملک آج دنیا کے مختلف ممالک کی حریت پسند اقوام کے لئے مشعل راہ بنا ہوا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے جوان ہوں یا پھر فلسطین کی مزاحمتی تنظیمیں، یمن کی تحریک انصار اللہ ہو یا پھر نائیجیریا کی تحریک اسلامی، عراق و شام کی مزاحمتی قوتیں ہوں یا پھر دنیا کے دیگر خطوں میں سامراج یا انکے پٹھوؤں کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریک کے جوان، سبھی اس وقت یزید عصر کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے سختیوں میں ضرور ہیں مگر اس کے باوجود اپنی حریت، آزادی، خودمختاری اور عزت و شرف کی پاسداری کر رہے ہیں۔

ٹیگس