طوفان الاقصیٰ آپریشن کے ماسٹر مائنڈ کہاں ہیں؟+ تصاویر کی زبانی
یحییٰ سنوار غزہ میں حماس کے موجودہ رہنما ہیں اور صیہونی انہیں طوفان الاقصیٰ آپریشن کے ماسٹر مائنڈ اور اس کو عملی جامہ پہنانے والوں میں سر فہرست سمجھتے ہیں اور ان کے سر کی قیمت 4 لاکھ انعام مقرر کیا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: عبرانی اخبار ہارٹص نے حال ہی میں سنوار کے بارے میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ یحییٰ سنوار صیہونی حکومت کی جنگی کونسل کے تمام ارکان سے زیادہ ہوشیار نکلے اور وہ جنگی انتظامات میں اسرائیل کے تمام سربراہان سے برتر ہیں۔
اسرائیل کے سابق اور موجودہ انٹیلی جنس افسران نے اعتراف کیا کہ وہ یحییٰ السنوار کو صحیح طرح سے نہیں جانتے تھے اور اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ یحییٰ السنوار عملی طور پر اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کے دوسرے کمانڈر ہیں۔
فنانشل ٹائمز اخبار نے لکھا ہے کہ یحییٰ السنوار نے، جنہیں رہائی سے قبل چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جیل میں اپنے وقت کو عبرانی زبان سیکھنے، اسرائیلی میڈیا کو فالو کرنے اور میناخم بیگن اور یتزاک رابن جیسی اہم اسرائیلی شخصیات کی شائع کردہ کتابیں پڑھنے بسر کیا ۔
سنوار کی قید کے بارے میں اسرائیلی حکومت کی ایک رپورٹ میں، اس طرح بیان کیا گیا تھا: "سخت، طاقتور، بااثر، اور غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ سختی، دھوکہ دہی، اور بہت کم خوشی کو برداشت کرنے، دوسرے قیدیوں کے درمیان جیل کے اندر بھی راز برقرار رکھنا اور لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت ان میں پائی جاتی تھی"۔
غزہ میں حماس کے دھڑے کے رہنما یحییٰ سنوار کے سابق تفتیش کار مائیکل کوبی نے ٹائمز کو بتایا کہ 30 سال قبل انہوں نے یحییٰ سنوار سے تقریباً 150 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تھی اور یہ نوجوان تفتیش کے پورے عرصے میں اپنے تفتیش کار کی تحقیر کرتا تھا اور اس کی سیاہ آنکھوں سے نفرت کی بارش ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کا یہ رہنما مرتے دم تک لڑے گا۔
2015 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے سرکاری طور پر یحییٰ سنوار کو "بین الاقوامی دہشت گردوں" کی فہرست میں شامل کیا۔
7 اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل کے یحییٰ سنوار تک پہنچنے میں ناکامی کی وجوہات کے بارے میں ایک رپورٹ میں، این بی سی نیوز نے لکھا کہ حماس کا یہ مفرور رہنما، جسے مذکورہ حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے، اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ایک قدم آگے رہنے میں کامیاب رہا۔
2021 میں یحیی السنوار نے ایران سے اظہار تشکر اس طرح کیا تھا: "اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطینی مزاحمت اس حد تک نہیں پہنچ سکتی تھی"۔
درج ذیل تصاویر 2012 کو اسماعیل ہنیہ کی سربراہی میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی ہیں جس میں "یحییٰ السنور" بھی نظر آرہے ہیں۔