زہریلا کچرا، فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کا نیا اسلحہ
صیہونی اداروں نے غرب اردن کو مںظم طور پر اپنے صنعتی اور زہریلے کچرے کے مرکز میں تبدیل کردیا ہے۔
سحرنیوز/عالم اسلام: رزنامہ العربی الجدید نے اپنی تازہ رپورٹ میں ماحولیات سے متعلق صیہونی حکومت کے سامراجی منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق صیہونی حکام مقبوضہ بیت المقدس کے شمال میں واقع قلندیا میں کچرا جلانے کا ایک کارخانہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ پروجیکٹ کچرے کی مینجمنٹ سے بالاتر ہوکر ان پالیسیوں کے وسیلے میں تبدیل ہورہا ہے جن کا مقصد فلسطینیوں پر رصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
کچرا،ایک سامراجی وسیلہ کے زیر عنوان اس رپورٹ میں آیا ہے کہ غرب اردن میں کچرا دفن کرنے کے تقریبا 70 غیر منظم مراکزموجود ہیں جہاں دسیوں ٹرک کچرا خالی کرتے ہیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ان مراکز ميں فلسطینیوں کا کچرا صرف 10 فیصد ہے اور 90 فیصد صیہونی آبادی کے علاقوں سے لاکر گرایا جاتا ہے۔
صیہونی کالونیوں کے کچرے کا بڑا حصہ غرب اردن میں قائم کئے گئے کچرے کے ان مراکز میں، مقامی آبادی کے لوگوں کی صحتمند زندگی کے حق اور ماحولیات کے قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے گرایا جاتا ہے۔
خود صیہونی حکومت کے شہری امور کے محکمے کے اعتراف سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بحران کتنا وسیع ہے۔
صیہونی حکومت کے شہری امور کے محکمے نے اعلان کیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے درمیان، ان ٹرکوں کی تعداد میں جو صیہونی کارخانوں کا کچرا غرب اردن لے جاتے ہیں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ ناقص اعتراف ہے جس میں حقیقت کے ہزارویں حصے کا بھی اقرار نہیں کیا گیا ہے۔
غرب اردن میں لاکر گرائے جانے والے کچرے میں خطرناک کچرے بھی شامل ہیں۔ ان ميں سیور لائن کے کیچڑ، الیکٹرانک کوڑے کرکٹ اور کیمیائی مواد سے لے کر، اسپتالوں کے کچرے،عمارتوں کے کوڑے، گھروں کے کچرے اور ایسے کیمیکلس کہ جن کے لئے معلوم نہیں ہے کہ کہاں سے لائے لاجاتے ہیں، سبھی کچھ شامل ہے اورکچرے کے یہ ڈھیر فلسطین کے ماحول حیات کو برباد کررہے ہیں۔
اس رپورٹ کے ایک اور حصے میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کارخانوں کے مالکین کچرا اٹھانے والے ٹرکوں کے ڈرائیوروں سے براہ راست معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے کارخانوں کا کچرا رات میں لے جاکر غرب اردن میں گرائيں گے۔
عام طور پر یہ کام غرب اردن کے ساکنین کو کوئی طلاع دیئے بغیر کیا جاتا ہے۔
صیہونی کارخانے غرب اردن میں خطرناک، مضر صحت اور ماحول حیات ختم کردینے والا کچرا پہنچا نے میں ایسی حالت میں سرگرم ہیں کہ اس سلسلے میں نہ کوئی نگرانی ہے اور نہ ہی قانون، اور قانون نیز نگرانی کا یہ خلا اتفاقیہ یا عارضی نہیں ہے بلکہ یہ فقدان اور خلا دانستہ تیار کیا گیا ہے تاکہ کسی خرچے اور کسی معیار اور قانون کی کوئی پروا کئے بغیرفلسطینی آبادی کے اندر یہ انتہائی تخریبی سرگرمیاں جاری رہیں۔