قرارداد 2803 اور مشرق وسطی میں نئی سمتوں کا تعین، پاکستان کا موقف حیرت انگيز کیوں ؟
غزہ پٹی کے بارے میں امریکہ کی مجوزہ قرارداد کی سلامتی کونسل میں منظوری نے ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی نام نہاد "امن منصوبے" کو نافذ العمل بنانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔
سحرنیوز/عالم اسلام: یہ قرارداد سلامتی کونسل میں 13 ووٹوں سے منظور ہوئی جبکہ ویٹو پاور رکھنے والے دو ارکان، چین اور روس، نے ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا لیکن پاکستان سمیت کئی اسلامی ملکوں نے اس قرارداد کی حمایت میں ووٹنگ کی۔
سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 کے تحت، 2027 کے آخر تک غزہ پٹی کے انتظامات ڈونلڈ ٹرمپ کی علامتی سربراہی میں ایک "امن کمیٹی" کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ تعمیر نو کے بجٹ کی نگرانی اور غزہ پٹی کے مقامی عہدیداروں اور پولیس کا تعین بھی اسی امن کمیٹی کے دائرہ اختیار میں ہوگا۔
قرارداد 2803 میں یک بین الاقوامی فورس کے قیام کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، جس کا مقصد مکمل طور پر غزہ میں اسلحہ ختم کرنا ، زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا، سرحدوں پر کنٹرول اور انسان دوست امداد کے عمل کو محفوظ بنانا ہے ۔
غزہ پٹی کے مقبوضہ علاقوں سے صیہونی فوج کی واپسی اور اسلحہ کے خاتمے کا عمل چار مراحل میں طے کیا گیا ہے۔ آخری مرحلے کے اختتام پر، غزہ پٹی کی سلامتی کو تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے حوالے کرنے، غرب اردن اور غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے آزادانہ انتخابات کرانے اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی مشروط راہ ہموار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
آٹھ عرب اور مسلم ممالک کی درخواست پر ترمیم کے بعد اس قرارداد کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی تھی اور ان ہی ممالک کی بھرپور حمایت سے یہ سلامتی کونسل سے منظور بھی ہو گئی۔
درحقیقت، قرارداد 2803 کا مواد ٹرمپ کے امن منصوبے کے لیے بین الاقوامی قانونی جواز پیدا کرنے اور اس کے نفاذ کے مراحل طے کرنے کے ایک حربے کے سوا کچھ نہیں ہے اور اب غزہ کے بارے میں امریکی منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کے ہاتھ کھل گئے ہیں۔
درحقیقت، امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر نے کئی عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ رابطے کے دوران ٹرمپ کے اس امن منصوبے کو تیار کیا تھا اور اس کا اصل مقصد ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے نام پر عرب اور مسلم ممالک کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے یہی وجہ ہے کہ فلسطینی محاذ پر، حماس نے قرارداد 2803 کی مخالفت کی ہے اور "غزہ کے لیے عربی امن تجویز" کو زیادہ مناسب حل قرار دیا ہے۔
قرارداد 2803 درحقیقت کچھ عرب اور مسلم ممالک کے تجویز کردہ خاکے اور ٹرمپ انتظامیہ کے مسودے کا امتزاج ہے۔ اسی وجہ سے حماس کی طرف سے مخالفت کا یہ معنی ہوگا کہ وہ ان آٹھوں ممالک یعنی مصر، سعودی عرب، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات، ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا - کے کے سامنے کھڑی ہو رہی ہے لہذا، یہ بعید ہے کہ حماس اس قرارداد کے نفاذ کے خلاف اپنی مخالفت جاری رکھ سکے۔
پاکستان نے کیوں اس قرارداد کی حمایت کی؟
اسلام آباد کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق امریکہ کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر پاکستان کے سیاسی، مذہبی اور صحافتی حلقوں میں شدید غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ووٹ سے پاکستان کے سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقوں میں ایک آگ سی بھڑک گئی۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی روایتی فلسطین کی حمایت والی پالیسی سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ قرارداد میں غزہ کے مستقبل، اس کے انتظامی ڈھانچے اور فلسطینی مزاحمت کے کردار کے متعلق کئی اہم ابہام موجود ہیں۔
پاکستان کے اس موقف سے کچھ حلقوں میں حیرت اس لئے بھی ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں پاکستان نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں کافی واضح موقف اختیار کیا تھا اور غزہ میں قتل عام کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور کئي مذمتی قراردادیں بھی پاس کیں۔
میڈیا کے مطابق پاکستان کی قانون دان ریما عمر نے ایکس پر لکھا کہ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قرارداد میں پاکستان وفد کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جیسے خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح سیاسی راستے متعین نہیں کیا گیا جبکہ بورڈ آف پیس اور بین الاقوامی استحکام فورس کے بارے میں وضاحت نہیں دی گئی ہے۔
سابق رکن قومی اسمبلی اور بین الاقوامی امور کی ماہرڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ اگر پاکستان کی تجاویز شامل نہیں کی گئی ہیں تو پاکستان نے قرارداد کے حق میں کیوں ووٹ دیا ہے؟
شیری مزاری نے لکھا کہ پاکستان کے ووٹ دینے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی تجاویز صرف پاکستان کے عوام کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔
ان حالات میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا بنیادی مقصد غزہ میں فوری طور پر خونریزی روکنا، جنگ بندی کو برقرار رکھنا اور علاقے سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کو یقینی بنانا ہے۔
شدت پسند صیہونیوں کی مخالفت کہاں تک سنجیدہ؟
ادھر صیہونی حلقوں میں بھی شدت پسند صیہونی رہنما اس قرارداد کی مخالفت کر رہے ہيں۔
اسموتریچ اور ایتامار بن گویر، دو انتہا پسند صیہونی رہنماوں نے اس قرارداد کے مندرجات کی سخت مخالفت کا اعلان کیا ہے جبکہ یہ بر سر اقتدار اتحاد کا حصہ ہیں حالانکہ اپوزیشن لیڈر اویگڈور لیبرمین نے بھی تقریبا اسی قسم کا موقف اختیار کیا ہے۔
یہ لوگ غرب اردن کے ساتھ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کر رہے ہيں حالانکہ ان کی مخالفت ظاہری ہی نظر آ رہی ہے کیونکہ اسرائيل اور اس کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کا ماضی گواہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں معاہدے کی کسی بھی شق پر وہ عمل نہيں کرتا اور مختلف بہانوں سے ٹالتا رہتا ہے اسی لئے یہ نہيں سمجھ میں آ رہا ہے کہ پاکستان اور بقیہ اسلامی ملکوں کو کس طرح یہ یقین ہے کہ صیہونی حکومت ، معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گی؟
جہاں تک نیتن یاہو کی بات ہے تو وہ قرارداد 2803 سے بین الاقوامی سطح پر اپنے لیے ہونے والے سیاسی فوائد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر قرارداد کے نفاذ میں پیش رفت ہوئی تو سعودی عرب اور کئی عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لا سکتے ہيں ۔
نیتن یاہو اس طرح سے اور اعتدال پسندی کے ڈرامے کے ذریعے فلسطینیوں کی "نسل کشی" کے الزام میں ہیگ کے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے اپنے خلاف جاری گرفتاری کے وارنٹ کو پس منظر میں ڈال
سکتے اور اسے فراموشی کے حوالے کر سکتے ہیں۔
(نور نیوز سے ماخوذ)