Nov ۲۳, ۲۰۲۵ ۱۸:۴۰ Asia/Tehran
  • ظہران ممدانی کے سامنے ٹرمپ کی ذلت ، عرب و اسلامی امت میں جلد ہی نئے

لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر اور معروف عرب صحافی عبد الباری عطوان نے ٹرمپ اور ظہران کی ملاقات کا اپنے انداز میں جائزہ لیا ہے جو کافی اہم اور دلچسپ ہے۔

سحرنیوز/عالم اسلام: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  وائٹ ہاوس میں ہونے والی  ملاقات کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں سوشلسٹ ڈیموکریٹ مسلمان ظہران ممدانی کے سامنے  بزدل نظر آئے۔

وہ  اپنے مخالف زہران ممدانی  کے خلاف تمام الزامات اور تنقیدوں سے دستبردار ہو گئے، جبکہ  یہ مہاجر نوجوان اپنے موقف پر ڈٹا رہا  اور ٹرمپ کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی اپنے  کسی موقف پر معافی مانگی، خاص طور پر ٹرمپ پر امریکی ٹیکس کے پیسے غزہ پٹی میں نسل کشی، بھوک اور نسلی  تصفیہ  کے لئے استعمال کرنے کے اپنے موقف سے بالکل پیچھے نہيں ہٹے۔

 

عربوں کی نظر میں "شیر" ٹرمپ  جن  پر انہوں نے پانچ کھرب ڈالر سے زیادہ  کی رقم قربان کر دی وہ بھی ایک ایسے سفر میں جو تین دن سے زیادہ نہیں تھا، ظہران کے سامنے  کسی بچھڑے کی طرح  تھےاور انہیں کمیونسٹ، انتہا پسند اور پاگل کہنے پر معافی مانگتے نظر آئے، اسی طرح  انہوں نے ذلت کے ساتھ ظہران کی امریکی شہریت واپس لینے، انہیں قید کرنے اور انہيں  امریکا سے نکالنے کی  اپنی دھمکیوں  کو بھی واپس لے لیا  اور کہا کہ ظہران ایک معقول آدمی ہیں، انتہا پسند جہادی نہیں، اور وہ بطور ڈیموکریٹ،  نیویارک شہر کو ایک بار پھر عظیم بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مالی تعاون کا وعدہ کیا۔

 اسی طرح جب ٹرمپ سے صحافیوں نے ، نیتن یاہو کو گرفتار کرنے کے ظہران کے بیان کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ یہ بات گفتگو کے ایجنڈے میں شامل نہيں تھی ، اس سوال کا جواب دینے سے گريز کیا۔

 

ظہران ممدانی  کا اپنے تمام اصولوں ، انسانی قدروں، خاص طور پر غزہ کے شہیدوں اور ان کے پاک لہو کی حمایت پر ڈٹے رہنا اور ان کے مقابلے میں ٹرمپ کا اپنے تمام جارحانہ نسل پرستانہ موقف سے شرمناک طور پر  پیچھے ہٹنا، اس بڑی اور بنیادی تبدیلی کا پہلا اور مضبوط ترین عوامی جلوہ ہے جو اب صرف امریکا تک محدود نہیں رہا، بلکہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔

آج کی دنیا میں  نہ تو نسل پرستی اور ظلم کے لیے جگہ ہے، اور نہ ہی استعماری خیالات اور طریقوں کے لیے، خواہ وہ مغرب میں ہو یا مشرق میں، شمال میں ہو یا جنوب میں۔

 

ظہران ممدانی ، جن کی عمر 34 سال سے زیادہ نہیں، امریکی نوجوانوں کی لئے رول ماڈل بن گئے ہيں۔ انہوں نے  امریکہ کے سب سے بڑے شہر اور شاید سب سے امیر ریاست نیویارک کی باگڈور وراثت، دھاندلی، یا صہیونی لابی، یا عرب اور مسلم ملکوں کے  پیسے کی مدد سے نہيں حاصل کی بلکہ  ان عہدہ انہوں نے ان عزت داروں اور غریبوں کے ووٹوں سے حاصل کیا جن کا انہوں نے ساتھ دیا، اور اپنی مہم میں  انہوں نے نیویارک کے عوام کو یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے لئے کام کریں گے اور ان کی زندگی بہتر بنائيں گے۔

 

ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان  ظہران نے ہجرت کے لئے ، امریکا  کا انتخاب کیا اور مالدار عرب ممالک نہیں گئے، ورنہ ان کے ساتھ پناہ گزينوں جیسا سلوک ہوتا،  نہ انہيں عزت ملتی ، نہ شہریت، نہ شناخت، اور ان کے ساتھ 51ویں درجے کے شہری کی طرح سلوک ہوتا۔

عرب اور مسلمان قوموں میں نئي نسل پروان چڑھ رہی ہے اور یہ جو نسل امریکہ اور اسرائیل  کی غلامی کی وجہ سے ذلت و رسوائی زندگی گزار رہی ہے وہ زيادہ دنوں تک چلنے والی نہيں ہے۔

عربوں اور مسلمانوں میں ایک نیا ظہران ممدانی بہت نمودار ہو گا اور وہ نئ " بہار عرب " کی قیادت کرے گا اور وہ مختلف میدانوں میں اپنے اسلاف کی میراث اور  اقدار، اخلاقیات اور کامیابیوں سے رہنمائی حاصل کرے گا اور یہ مستقبل قریب کا " ظہران " "اسرائیل" سے خوفزدہ نہیں ہو گا، اور نہ ہی  وائٹ ہاوس  کے ساکنوں  کے جوتے چاٹے گا۔ وہ دن آپ سب دیکھیں گے ۔

(رای الیوم سے ماخوذ)

ہمیں فالو کریں: 

Follow us: Facebook, X, instagram, tiktok

 

ٹیگس