Dec ۱۰, ۲۰۲۵ ۱۳:۲۵ Asia/Tehran
  • کیوں شام  ماڈل  کے بجائے عبرت بن گیا ، ایک سال بعد آنکھ کھولنے والے حقائق

مغربی ایشیا یا جسے مغرب والے مشرق وسطی کہتے ہيں ہمیشہ سے ہی مغرب کی طمع کاریوں کا مرکز رہا ہے۔ مغرب نے دہشت گردوں کی مدد سے شام میں اپنے منصوبوں پر عمل در آمد کی کوشش کی تھی جس میں طویل مدت تک ناکامی کے بعد آخرکارانہيں کامیابی ملی لیکن اب ایک سال پورے ہونے کے بعد شام میں مغرب کی مبینہ" کامیابی" کی کیا صورت حال ہے ؟ ایک تجزیاتی جائزہ

سحرنیوز/عالم اسلام: جولانی اور تحریر الشام کے دمشق میں داخل ہونے کے ایک سال بعد، مغرب کی حمایت اوراسرائیل  کے ساتھ سمجھوتے پر مبنی "نئے شام" کا خواب   نہ صرف شرمندہ تعبیر نہیں ہوا بلکہ آج  شام  کھوکھلے وعدوں  اور ان قوموں کے لیے عبرت ناک مثال بن چکا ہے جو اپنے مسائل کا حل غیر ملکی  ذرائع میں تلاش کرتی ہیں۔

8 دسبمر سن 2024  میں شام میں جو کچھ ہوا وہ در اصل ایک ماڈل کا آغاز تھا جسے پورے علاقے کے مختلف ملکوں کے لئے عملی نمونہ بنایا جانا تھا۔  ترکیہ، کچھ عرب حکومتوں، مغربی ملکوں اور صہیونیوں کی پشت پناہی سے  سے لیس الجولانی اقتصادی ترقی، غیر قبائیلی ڈھانچے اور عالمی کردار کے نعرے  کے ساتھ دمشق میں  اسی دن داخل ہوئے تھے۔ اس  کے بعد سے انہوں نے بیرون ملک دوروں، تحریر الشام کا نام دہشت گردوں  کی فہرست سے خارج کرانے اور اپنی شبیہ بدل کر قانونی جواز حاصل کرنے کی بے حد کوشش کی جس میں انہيں عالمی طاقتوں اور صیہونیوں کا تعاون بھی پوری طرح سے حاصل رہا ۔

جولانی کل اور آج مغرب کی نظر میں 

 

لیکن زمینی حقائق کچھ اور  ہیں۔ انسانی حقوق کی رپورٹ اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق  شام کی معیشت ترقی کے بجائے زوال سے قریب ہو گئی، بے گھر ہونے اور پناہ گزینوں کے بحران کا سلسلہ جاری رہا اور ایک سال کے دوران تحریر الشام کے حملوں میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔ پارلیمانی انتخابات جمہوریت کی علامت کے بجائے جولانی  آمرانہ  حکمرانی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے۔ ان کی کابینہ بھی  شام کے با صلاحیت اور اہل افراد کے بجائے القاعدہ کے  سابق عناصر اور غیر ملکی  افراد  سے تشکیل پائي جس کی جوہ سے شام میں استحکام کے بجائے سماجی فاصلے میں اضافہ ہو گیا۔

 

تقسیم، غاصبانہ قبضہ اور اسرائیل پر اعتماد کی تاریخی غلطی

الجولانی کا "شام کی سالمیت کے تحفظ" کا دعوی اب اس ملک کے پارہ پارہ جغرافیہ کی حقیقت کے یکسر منافی ہے۔ ادلب اور حلب  پر ان کا کنٹرول  ہے ، ترکیہ کے قبضے میں شمالی علاقے ہیں جبکہ امریکہ  شام کے تیل سے مالامال علاقوں پر قابض ہے  اور درعا سے قنیطرہ اور ریف دمشق تک  کے علاقوں پر صیہونی حکومت کا تسلط  ہے اور شام  مختلف طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے ۔

 الجولانی نے اقتدار کے  آغاز میں با ضابطہ  طور پر اسرائیل سے دشمنی کا انکار کیا اور یہاں تک کہ انہوں نے  مزاحمتی محاذ ختم کرکے خود کو تل ابیب کی سلامتی کا حامی قرار دیا لیکن نتیجہ  بر عکس نکلا، شام کا بنیادی ڈھانچہ،   اسرائيل کے مسلسل فضائی حملوں میں تباہ ہو چکا ہے اور صہیونیوں نے  اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کے بعد جولانی سے بات چیت کی بھی زحمت نہیں کی۔

 شام کی اس صورت حال سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ  غاصب طاقتوں سے  سمجھوتہ نہ تو سلامتی لاتا ہے، نہ خود مختاری، بلکہ صرف  ان سے معاہدہ اور سمجھوتہ ، زیادہ تسلط کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

 

مغرب؛ تضادات بھرے ماضی کے ساتھ نجات دہندہ کا بھیس

یورپ اور امریکہ نے برسوں تک بشار اسد کو ہٹانے  کے لئے پلاننگ کی تھی  اسی لئے الجولانی کے  دمشق میں داخلے  کے بعد انہوں نے دمشق میں اپنے سفارتی وفود بھیجے اور الجولانی اور ان کی تنظيم کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی  میڈیا نے مزاحمت کو  غلط کام ثابت کرنے کی کوشش کی اور مغرب کے ساتھ تعاون کو نجات کا راز قرار دیا۔

لیکن ایک سال بعد نتیجہ واضح ہو گیا:  شام کے خلاف نہ پابندیاں منسوخ ہوئیں، نہ معیشت میں جان  پڑی، اور نہ ہی عوام کی زندگی بہتر ہوئی۔ اس کے برعکس، مغربی حکومتوں نے ٹکڑے ٹکڑے شام سے اپنا حصہ پانے  کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کیا اور ساتھ ہی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو واپس بھیج کر لاکھوں افراد  کو در بدر بھٹکنے پر مجبور کر دیا ۔

شام میں بھی مغرب نجات دہندہ نہیں بلکہ ایک ایسا فریق ہے جوکھوکھلے وعدوں اور جولانی کے مظالم پر خاموشی کے ذریعے دہشت گردی کے  ایک عشرے پر محیط ماضی کو شام کی پیشانی سے مٹانے کی کوشش میں مصروف ہے۔  

 

پروپگنڈوں میں ناکامی؛  رول ماڈل سے بدنامی تک

مغربی میڈیا نے ابتدا میں جولانی کو مستقبل کا بہترین  رہنما قرار دینے کی کوشش کی۔ صیدنایا کے بارے میں کہانیوں، پروپگنڈوں اور اجتماعی قبروں کی  داستانوں کے ذریعے انہوں نے شام کے مصائب کا ذمہ دار مزاحمت کو ٹھہرانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف، انہوں نے دہشت گردی کے ماضی  کو ختم کرکے تحریر الشام جیسی بھیانک دہشت گرد تنظيم  کو "اعتدال پسند" بنانے کی کوشش کی۔

آج ایک سال بعد، شام کو رول ماڈل  بنانے کا مغربی پروجیکٹ تباہ ہو چکا ہے۔  جنہوں نے غزہ میں نسل کشی کو سنسر کیا، انہوں نے ہی شام میں دہشت گردوں کو کلین چٹ دی لیکن آج شام رول ماڈل نہیں بلکہ "ایک تاریخی انتباہ" ہے۔  شام کے بیت جن میں احتجاج اور صہیونی فوجیوں کی وہاں سے پسپائی بیداری کے آغاز کی علامت ہے ۔

اسرائیلی فوجیوں نے  الجولانی کے فوجیوں کو برہنہ تک کیا

 

ہمیں فالو کریں: 

Follow us: FacebookXinstagram, tiktok

یہ بیداری مغربی  ماڈل کی فریب کاری کے خلاف  ہے ۔ یہ بیداری قومی یکجہتی اور مقامی مزاحمت کی طرف واپسی کی ضرورت  پر زور دینے کے لئے ہے اور جب شام کا پوری طرح سے بیدار ہوگا تو یہ صیہونی حکومت کے لئے غالبا سب سے زيادہ خطرناک اور مہلک محاذ ثابت ہوگا جیسا کہ عرب تجزيہ کاروں کا خیال ہے ۔

( نور نیوز سے ماخوذ)

ٹیگس