Dec ۲۴, ۲۰۲۵ ۱۵:۴۱ Asia/Tehran
  • اسرائیل کیا پھر سے کرے گا ایران پر حملہ ، کیا ایران ہی نیتن یاہو کے امریکہ دورے کا مرکزی محور ہے؟  ایک تجزیہ

این بی بی سی نیوز کے مطابق، اسرائیلی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو 29 دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کی فلوریڈا کی رہائش گاہ میں ملاقات کریں گے۔

سحرنیوز/عالم اسلام:ان عہدیداروں کے مطابق، نیتن یاہو شاید اس ملاقات میں امریکی صدر کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام ایک ایسا خطرہ ہے جس  پر فوری اقدام کی ضرورت ہے۔

در اصل نیتن یاہو کے امریکہ دورے سے پہلے مغربی میڈیا میں اس طرح کی خبریں بہت زیادہ نظر آ رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے اور نیتن یاہو کا یہ دورہ ، ایران کے بارے میں ہے یا پھر کچھ اور حقائق پس پردہ ہیں؟

تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاہو کا امریکہ کا دورہ ایران کے لیے براہ راست خطرہ نہیں، بلکہ غزہ کے بحران کے حل اور ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہے۔ ایران پر بہت زیادہ زور دینا خطے اور تل ابیب میں رائے عامہ کے لیے  ایک پروپگنڈہ اور تشہیراتی جنگ ہے  البتہ اس خیال کی ٹھوس بنیاد ہے۔

ایرانی ميزائلوں کے خوف سے دشمنوں کی نیند حرام

 

حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ نیتن یاہو کے امریکہ کے دورے کا اصل مقصد غزہ کا معاملہ اور "ٹرمپ امن منصوبہ " ہے جس کے جال میں فی الحال نیتن یاہو اور ٹرمپ پھنسے نظر آ رہے ہيں کیونکہ یہ منصوبہ اب ناکامی کے دہانے پر ہے، اور وائٹ ہاؤس کی طرف سے کوئی بھی نئی کارروائی تل ابیب کے لیے نمایاں نتائج کا باعث بنے گی۔ ٹرمپ ایک نیا  قدم  اٹھانا چاہتے ہيں لیکن وہ نیتن یاہو کے سیاسی اور سیکیورٹی تحفظات کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے یہ دورہ دوبارہ ہم آہنگی پیدا کرنے، اختلافات کو حل کرنے اور وائٹ ہاؤس کی یکطرفہ کارروائی کو روکنے کا موقع سمجھا جاتا ہے۔ 

اس دورے میں سب سے اہم موضوع غزہ ہوگا کیونکہ غزہ کی صورت حال، کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی ہے۔ ان پیچیدگیوں اور ممکنہ ناکامیوں سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی نتین یاہو اور ہم نوا میڈیا ، ایران ایران کے نعرے لگا رہا ہے۔

 

ایران کے خطرے پر بہت زیادہ بات ، میڈیا وار کا حصہ

ایران کے میزائل اور جوہری پروگرام کے بارے میں حالیہ ماحول سازی زمینی  حقائق کی عکاسی کرنے کے بجائے ایک نفسیاتی اور تشہیراتی بنیاد  رکھتی ہے۔ اس  مسئلہ کو نمایاں کرنے کا مقصد  بے چینی پیدا کرنے، تصوراتی خطرے کو باور کرانا  اور ایران نیز خطے  میں عوامی رائے کو متاثر کرنا ہے۔ ایران  کو تل ابیب کی جانب سے  خطرہ قرار دے کر اس پر ساری توجہ مبذول کرنا در اصل غزہ کے حقیقی بحران کے لیے ایک آڑ اور ایک ایسی حکمت عملی ہے جو نیتن یاہو کی داخلی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

غزہ ، گلی کی ہڈی

 

یہ حکمت عملی نہ صرف مقبوضہ علاقوں کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی موثر ثابت ہوتی  ہے۔ ایران کو بڑا خطرہ قرار دے کر اسرائیل،  امریکی سیاسی حمایت حاصل کرنے اور اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے  کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔


12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جس طرح سے اسرائیلی و امریکی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اس کے پیش نظر تجزیہ نگاروں کو ایسا نہیں لگتا کہ اسرائيل فوری طور کسی نئي جارحیت کی ہمت کرے گا خاص طور پر اس لئے بھی کہ اب خبریں ہیں کہ ایران نے خطرے سے نمٹنے کے لئے مکمل آمادگی  کر لی ہے ۔

 

ہمیں فالو کریں: 

Follow us: FacebookXinstagram, tiktok  whatsapp channel

تل ابیب کی صلاحیتوں کی حدود 

اسرائیل کی داخلی صورت حال  اور علاقائی حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ فی الحال ایران کے ساتھ نئے تصادم میں داخل ہونے کی ہمت کرے گا۔  شمالی محاذ پر سیکورٹی دباؤ، سفارتی  پیچیدگیاں، غزہ میں فرسودہ جنگ اور اندرونی سماجی بحران نے عملی طور پر تل ابیپ کی فیصلہ  کرنے اور خطرناک مہم جوئی کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ کوئی نئی فوجی کارروائی بھی غیر متوقع اور مہنگے نتائج کا باعث بن سکتی ہے، لہذا ایران پر زور دینا اصل خطرے کے بجائے ایک دھمکی اور دباؤ کا  ذریعہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ 

دوسرے لفظوں میں، نیتن یاہو کا دورہ اور ایران پر میڈیا کی توجہ مرکوز کرنا در اصل تل ابیب کے حکام میں  سیاسی مایوسی اور بحران کو اندر سے باہر منتقل کرنے کی کوشش  معلوم پڑتا ہے۔ 

(نور نیوز سے ماخوذ)

ٹیگس