عمران خان مذاکرات کو تیار مگر فضل الرحمان استعفے کے خواہاں
حکومت نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ سے قبل حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدرمحمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے کہنا تھا کہ قوم نے 10 ماہ میں جعلی الیکشن کے نتائج دیکھ لئے ہیں، 400 ادارے بیچے جارہے ہیں، اب پوری قوم کی ایک ہی آواز ہے نئے الیکشن کرائے جائیں، انتخابات کے بعد جو بھی نتائج ہوں اور جو بھی جیتے نتائج ہم قبول کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی لوگ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، حکومت کے تمام حربے ناکام ہوچکے ہیں، وزیراعظم کے استعفیٰ سے پہلے حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے، آئین کی حکمرانی اور اداروں کا حدود میں رہ کر کام کرنے کے مطالبے پر دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ کسی ادارے نے عوام کا راستہ روکنے کی کوشش کی تو سمجھا جائے گا کہ ادارے ریاست کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کے لئے استعمال ہورہے ہیں، ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے لیکن اداروں کو بتانا چاہتا ہوں اگر مارشل لا کی کوشش کی تو آزادی مارچ کا رخ ان کی طرف موڑ دیا جائے گا۔
اس موقع پر محمود خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی تحریک کو مذہبی تحریک سے جوڑنا غلط ہے، فوری طور پر ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے جس میں مولانا فضل الرحمان کو لانا میری ذمہ داری ہے، آئین کی بالادستی کے لیے ہم آزادی مارچ میں شامل ہوں گے۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب اورخیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ اورتین گورنرز نے شرکت کی۔ حکومت نے مولانا فضل الرحمان سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ وزیردفاع پرویز خٹک ہونگے۔ کمیٹی اپوزیشن سے اس کے مطالبات پر مذاکرات کرے گی۔