پاکستان میں افغان مہاجرین کا مستقبل؟
حکومت پاکستان نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو خاموشی سے منتقل کرنے اور انہیں مرحلہ وار وطن واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
سحر نیوز/ پاکستان: پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاسوں میں حتمی شکل دی گئی، جن میں سے ایک اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی شریک تھے۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر کسی باضابطہ اعلان کے بغیر عملدرآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ (ACC) رکھنے والے افغان باشندوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کیا جائے گا اور بعد میں انہیں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے ساتھ افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق دوسرے مرحلے میں پروف آف رجسٹریشن کارڈ (PoR) رکھنے والے افغان باشندوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکالا جائے گا، مگر انہیں فوری طور پر بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے پی او آر رکھنے والے افغان باشندوں کو جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
جو افغان باشندے کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں، انہیں 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے منتقل کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزارت خارجہ عالمی اداروں اور غیر ملکی سفارتخانوں سے رابطے میں ہے تاکہ ان کی جلد از جلد منتقلی ممکن ہو سکے۔ اگر کوئی افغان مہاجر کسی تیسرے ملک میں منتقل نہ ہو سکا تو اسے افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
پاکستان نے 2023 میں ملک بھر سے لاکھوں افغان مہاجرین کی بے دخلی کے لیے مہم شروع کی تھی، جس کے تحت حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 5 ہزار 991 افغان مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی نے جبری بے دخلی پر تنقید کی اور سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔
آئی او ایم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں سینکڑوں افغان باشندوں کو اسلام آباد میں گرفتار کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں پی او آر اور اے سی سی رکھنے والے افغان باشندوں کی مجموعی تعداد تقریباً 20 لاکھ ہے، جن میں سے 13 لاکھ پی او آر اور 7 لاکھ اے سی سی کے حامل ہیں ۔