ایٹمی معاہدہ اور مغرب کے سامنے عجیب و غریب صورتحال
جامع ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کے اعلان کو ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اس دوران امریکا کو اس معاہدے میں باقی رہنے کے لئے راضی کرنے کی غرض سے مختلف بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ میں فرانس کے مسقل مندوب نے کہا ہے کہ پیرس کی ترجیح اور خواہش ایران کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنا ہے۔ اقوام متحدہ میں فرانسیسی مندوب فرانسوا ڈلاٹر کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدہ عالمی امن و صلح کے لئےایک اطمینان بخش ذریعہ ہے اور فرانس کی ترجیح اس معاہدے کو باقی رکھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون نے تیئیس اپریل کو واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کہا تھا کہ ایٹمی معاہدے پر ہم سب نے دستخط کئے ہیں اور ہم کسی بھی قیمت پراس معاہدے سے باہر نہیں نکلیں گے۔
فرانسیسی مندوب کا کہنا تھا کہ دنیا کے ملکوں کے ا قتدار اعلی اور امن و استحکام منجملہ ایران کے قومی اقتدار اعلی کا احترام کیا جانا چاہئے کیونکہ ایران ایک عظیم تہذیب و تمدن کا مالک ہے۔
اس درمیان برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن امریکی حکام کو ایٹمی معاہدے میں باقی رکھنے کے لئے انہیں راضی کرنے کی غرض سے واشنگٹن روانہ ہوگئے ہیں۔ برطانوی وزیرخارجہ نے نیویارک ٹائمز میں اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ اس بین الاقوامی معاہدے سے نکلنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدے کے علاوہ کوئی بھی آپشن بدتر ہوگا۔
برطانوی وزیرخارجہ نے ایٹمی معاہدے میں کچھ خامیوں کا بھی دعوی کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے اس معاہدے میں بہت ہی کم خامیاں پائی جاتی ہیں۔ برطانوی وزیرخارجہ نے ایک بار پھر ٹرمپ کو راضی کرنے کے لئے یہ جملہ دوہرایا کہ ایٹمی معاہدے میں اصلاحات کی گنجائش ہے اور برطانوی حکومت امریکا، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ملکر اس سلسلے میں تعاون اور کام کر رہی ہے۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے نے ٹیلی فونی رابطہ کیا ہے اور اس ٹیلی فونی گفتگو کا ایک اہم موضوع ایٹمی معاہدہ اور اس کا مستقبل تھا۔
لیکسمبرگ کے وزیرخارجہ نے بھی کہا ہے کہ ٹرمپ کو نہیں چاہئے کہ وہ ایران کے ساتھ ہوئے ایٹمی معاہدے کو سبو تاژ کریں۔ ایسو سی ایٹڈ پریس نے بھی لکھا ہے کہ ٹرمپ ایٹمی معاہدے سے نکل کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال دیں گے۔